استنبول: پاک-افغان مذاکرات کا دوسرا دور اختتام پذیر، کالعدم ٹی ٹی پی کی نئی آباد کاری کی پیشکش مسترد

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ سرحدی کشیدگی کے بعد قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کا دوسرا دور استبول میں اختتام پذیر ہو گیا، افغان طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی کی نئی جگہ پر آباد کاری کے حوالے سے پاکستان کو پیشکش کی، جسے مسترد کر دیا گیا۔

ڈان نیوز کے مطابق سفارتی ذرائع نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان استنبول کے مقامی ہوٹل میں ہونے والے مذاکرات جمعہ (25 اکتوبر) کی دوپہر 2 بج کر 30 منٹ پر شروع ہوئے، جو 7 گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہے۔

سفارتی ذرائع کے مطابق دوران مذاکرات افغان طالبان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی نئی جگہ پر آباد کاری کے حوالے سے پاکستان کو پیشکش کی، جسے مسترد کر دیا گیا۔

ذرائع کے مطابق طالبان نمائندوں نے کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستانی سرحد سے دور منتقل کرنے کی پیشکش کی تھی، جس کے جواب میں پاکستان نے افغان طالبان سے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کے وعدوں پر عملدرآمد پر زور دیا۔

پاکستان کا مطالبہ کیا کہ افغان طالبان عالمی برادری کے ساتھ کئے گئے اپنے وعدے پورے کریں۔

سفارتی ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستان کا 7 رکنی وفد سینئر عسکری، انٹیلی جنس اور وزارتِ خارجہ کے حکام پر مشتمل ہے جب کہ افغانستان کا 7 رکنی وفد نائب وزیرِ داخلہ کی قیادت میں مذاکرات میں شریک ہے۔

ترک خبر رساں ادارے انادولو نے رپورٹ کیا ہے کہ افغان عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ افغان وفد کی قیادت نائب وزیر داخلہ مولوی رحمت اللہ نجيب کریں گے۔

انہوں نے گزشتہ روز کی گئی ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ باقی رہ جانے والے معاملات اجلاس میں زیرِ بحث آئیں گے۔

اس سے قبل، پاکستان اور افغانستان نے سرحد پر ایک ہفتے تک جاری شدید اور خونریز جھڑپوں کے بعد قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے پہلے دور میں فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے پہلے دور میں دونوں ممالک نے آنے والے دنوں میں فالو اپ ملاقاتیں کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی تھی تاکہ جنگ بندی کے تسلسل کو یقینی بنایا جاسکے اور اس کے نفاذ کی قابلِ اعتماد اور پائیدار نگرانی کی جاسکے۔

ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاک-افغان مذاکرات کا دوسرا دور آج استنبول میں ہوگا۔

بیان میں کہا گیا کہ افغانستان سے کشیدگی نہیں چاہتے لیکن افغان طالبان سے مطالبہ ہے کہ وہ عالمی برادری سے اپنے وعدوں کی پاسداری کرے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، فتنۃ الہندوستان اور سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سخت ایکشن لیں۔

گزشتہ روز، دفترِ خارجہ کے نئے ترجمان طاہر حسین اندرابی نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ پاکستان کو امید ہے کہ آج استنبول میں ہونے والے اگلے اجلاس میں ایک ٹھوس اور قابلِ تصدیق نگرانی کا نظام قائم کیا جائے گا، تاکہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف ابھرنے والی دہشت گردی کے خطرے کا تدارک کیا جا سکے اور پاکستانیوں کی مزید قیمتی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں کمی کے لیے قطر میں مذاکرات 18 اور 19 اکتوبر کو منعقد ہوئے تھے جس میں دونوں ممالک نے اپنے اپنے تحفظات پیش کئے تھے۔

علاوہ ازیں، ایک انٹرویو میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ پاکستان، افغانستان، ترکیہ اور قطر کی جانب سے دستخط کردہ معاہدے میں یہ بات واضح طور پر لکھی گئی ہے کہ کوئی سرحدی دراندازی نہیں ہوگی اور جب تک اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، جنگ بندی نافذ العمل رہے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان، افغانستان سے طالبان کی ’ملی بھگت‘ سے پاکستان پر حملے کرتی رہی ہے، تاہم کابل پہلے ہی ان الزامات کی تردید کر چکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ جنگ بندی کے معاہدے کا بنیادی مقصد ’دہشت گردی کے خطرے کا خاتمہ’ ہے، دہشت گردی کئی برسوں سے پاک-افغان سرحدی علاقوں کو متاثر کر رہی ہے۔

پاکستان کے لیے ترکیہ ایک ایسا قابلِ اعتماد شراکت دار ہے جو ایسا نظام تشکیل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے جس پر دونوں ممالک انحصار کر سکیں، اس طرح امن عمل کو عارضی سفارت کاری سے ایک ادارہ جاتی امن سازی کی سمت منتقل کیا جا سکتا ہے۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ افغانستان کے ماہر ابراہیم باہس نے اس ملاقات کو ’انتہائی ضروری‘ قرار دیا، انہوں نے خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ نگرانی کے ’میکانزم‘ میں مسلح گروہوں سے متعلق انٹیلی جنس کے تبادلے کا عمل شامل ہو سکتا ہے۔

ابراہیم باہیس کا کہنا تھا کہ ’مثال کے طور پر پاکستان اُن مقامات کے کوآرڈینیٹس دے گا جہاں اُسے شبہ ہو کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو یا کمانڈر موجود ہیں اور حملے کرنے کے بجائے افغانستان سے توقع کی جائے گی کہ وہ اُن کے خلاف کارروائی کرے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ واضح نہیں کہ آیا اس سے مسئلہ حل ہو جائےگا، ’میں زیادہ پُرامید نہیں ہوں کہ کوئی تکنیکی نظام اس بڑھتے ہوئے معاملے کے بنیادی عوامل کو واقعی حل کر سکے گا۔

خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2600 کلومیٹر طویل متنازع سرحد پر زمینی لڑائی اور پاکستانی فضائی حملے اس وقت شروع ہوئے تھے، جب اسلام آباد نے کابل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ دہشت گردوں پر قابو پائے جو مبینہ طور پر افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے حملے کرتے ہیں۔

بعد ازاں، 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب افغانستان سے طالبان حکومت کی سیکیورٹی فورسز نے پاکستان پر بلااشتعال فائرنگ کی تھی، جس پر پاک فضائیہ نے منہ توڑ جواب دیا۔

سیکیورٹی فورسز کی جانب سے افغان علاقوں کنڑ، ننگرہار، پکتیکا، خوست اور ہلمند میں بھی کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائیاں کیں جب کہ جارحیت کا مظاہرہ کرنے والی کئی افغان چوکیوں کو نشانہ بنایا تھا جس میں درجنوں افغان طالبان مارے گئے۔

ناکامی اور پسپائی پر افغان طالبان حکومت نے پاکستان سے فوری جنگ بندی کی استدعا کی تھی جس پر پاکستان نے 15 اکتوبر کو 48 گھنٹوں کے لیے عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا۔

طالبان حکومت نے ایک بار پھر جنگ بندی میں توسیع کی درخواست کی جس پر پاکستان نے امن مذاکرات تک جنگ بندی برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

Leave a Reply