ایک بار لاہور کے طلبا نے کچھ گڑبڑ کی تو گورنر امیر محمد خان (نواب آف کالا باغ) نے کالج غیر معینہ مدت کیلئے بند کر دیے۔جب کالج بند ہوئے بہت دن ہوگئے تو ایوب خان نے مجھے لاہور بھیجا کہ میں کوشش کرکے نواب صاحب کو کالج کھولنےپر آمادہ کروں۔اس سلسلے میں میرا نواب کالا باغ کے ساتھہ جو مکالمہ ہوا وہ بعینہ درج ذیل ہے:
میں: نواب صاحب، صدر ایوب خان اس بات پر فکر مند ہیں کہ لاہور کے کالج بند ہوئے کافی عرصہ گزر گیا ہے۔
نواب صاحب: مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ صدر محترم کو کالج بند رہنے کی فکر کیوں کھائے جا رہی ہے؟
میں: میرے خیال میں اُنہیں یہ فکر ہے کہ طلبا کی پڑھائی کا ہرج ہو رہا ہے۔
نواب صاحب: پڑھائی کے ہرج سے کیا ہوگا ؟
میں: تعلیم کا وقت ضائع ہوگا۔
نواب صاحب: وقت ضائع ہونے سے کیا ہوگا ؟
میں: شاید طلبا کی زندگی کا ایک سال مارا جائے۔
نواب صاحب: اگر زندگی کا ایک سال مارا بھی گیا، تو کیا ہوگا ؟
اس احمقانہ سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ نواب صاحب مونچھہ مروڑ کر بولے، میں کہتا ہوں کہ اگر ایک پوری جنریشن کی جنریشن ہی ان پڑھ رہ جائے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آخر میرے اور تمہارے آبا و اجداد یا صدر محترم کے آبا و اجداد بھی تو بی۔اے اور ایم۔اے پاس نہ تھے۔ان کا ان پڑھ ہونا ہمارے اعلیٰ عہدوں میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکا۔میں جب مناسب سمجھوں گا کالج کھلوا دوں گا۔ جناب صدر کو جا کر تسلی دینا کہ وہ خواہ مخواہ کی فکر میں جان نہ کھپائیں۔
قدرت اللہ شہاب: شہاب نامہ
