یہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا
کھلا ضرور مگر کھل کر مسکرا نہ سکا
اوچ شریف کے بیٹ احمد کا رہائشی 16 سال کا محمد عرفان کراچی گھومنے گیا اور پھر واپس نہ أیا… محمد عرفان کو نامعلوم جرم میں تھانہ صدر کراچی پولیس نے تحویل میں لیا پھر اگلے دن اس کی موت کی خبر اس کے چچا کو سنائی گئی سوشل میڈیا رپورٹ کے مطابق محمد عرفان پر تھانے میں بے پناہ تشدد کیا گیا جسے برداشت نے کرتے ہوئے یہ پھول ہمیشہ کے لئے مرجھا گیا…. وجہ جو بھی تھی یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے…. اور اس عمر میں کیا جرم ہوسکتا تھا..
اگر بالفرض کوئی الزام تھا بھی سہی کیا أئین اس عمر میں اس قدر تشدد کی اجازت دیتا ہے. ؟
کیا ماورائے عدالت قتل خود ایک جرم نہیں ؟..
.رپورٹس کے مطابق ذمہ داران پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے.. مگر سوال یہ ہے ان کے حراست میں لئے جانے سے اس بےگناہ معصوم کا دکھ ان کے ورثاء کے دلوں سے کم کیا جاسکتا ہے…کیا اس کے والدین کے کلیجے کو ٹھنڈ پہنچائی جاسکتی ہے… کیا ان کا پھول جیسا شہزادہ انہیں واپس مل سکتا ہے… یا. أئندہ ایسے واقعات کو روکا سکتا ہے…. کبھی نہیں.. بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ذمہ داران کو ایسی سزا دی جائے جو دوسروں کیلئے عبرتناک ہو…تاکہ أئین پامال کرنے والوں کو سبق سکھانے کے لئے اس وقوعہ کے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دیکر کسی دوسرے عرفان کی زندگی کو بچایا جاسکے…. اور قانون کی بالا دستی قائم کی جاسکے
ازقلم رانا عمران علی
