سوڈان: انسانیت کا بھولا ہوا نوحہ

یہ تین نوجوان نہ قاتل تھے، نہ چور، نہ کسی لشکر کے سپاہی۔
وہ صرف زندگی کی تلاش میں نکلے تھے۔
ایک کے کندھے پر آٹے کا تھیلا، دوسرے کے ہاتھ میں چند پیکٹ میکرونی،
اور تیسرے کے ہاتھ خالی— مگر ارادے انسانیت سے بھرپور۔

ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ محصور شہر الفاشر کے بھوکے انسانوں تک خوراک پہنچانا چاہتے تھے۔
مگر ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے درندوں نے انہیں پکڑ لیا۔
گڑھا کھدوایا، موبائل کیمرے آن کیے،
اور گولیوں کی بوچھاڑ سے ان کے جسموں کو مٹی میں سلا دیا۔
انسانیت کی غیرت، ان کے ساتھ اسی گڑھے میں دفن ہو گئی۔
نہ اقوامِ متحدہ چیخی، نہ عالمی ضمیر جاگا —
کیونکہ یہ نوجوان سوڈانی تھے۔

غزہ پر قیامت غیر اقوام کے ہاتھوں ٹوٹی،
مگر سوڈان پر حشر مسلمانوں کے اپنے ہاتھوں بپا ہے۔

یہ وہ سرزمین ہے جہاں کبھی دریائے نیل کے کنارے
مرو کی بادشاہیاں اور نوبیہ کی تہذیبیں آباد تھیں۔
آج انہی کناروں پر انسانوں کا خون بہہ رہا ہے۔
جہاں کبھی تاریخ لکھی جاتی تھی،
آج المیوں کی لکیریں کھینچی جا رہی ہیں۔

سوڈان کو دنیا نے ایسے بھلا دیا ہے
جیسے کل شام کو بھلا دیا گیا تھا۔
غزہ کے لیے آوازیں اب بھی گونجتی ہیں،
مگر سوڈان کے لیے صرف خاموشی باقی ہے۔

دو برسوں سے جاری خانہ جنگی نے
اس ملک کو ملبے اور لاشوں کا صحرا بنا دیا ہے۔
فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کی اقتدار کی جنگ
اب انسانوں کے خون میں ڈوب چکی ہے۔
ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد مارے جا چکے،
لاکھوں بے گھر، کروڑوں بھوک سے مر رہے ہیں۔

الفاشر، شمالی دارفور کا دل،
اب ایک زندہ قبرستان بن چکا ہے۔
جہاں آٹا، دوائی اور پانی—
زندگی کی نہیں، موت کی علامت بن گئے ہیں۔

دنیا کے دارالحکومتوں میں
اقتدار اور تیل کی سیاست زیادہ اہم ہے،
بجائے ان معصوم روحوں کے
جو نیل کے کنارے دم توڑ رہی ہیں۔

آج ایک تھیلا آٹا اور چند پیکٹ میکرونی
انسانی جرم بن چکے ہیں۔
سوڈان، جو کبھی تہذیبوں کا پل تھا،
آج انسانیت کا قبرستان ہے۔

اگر عالمی ضمیر نے اب بھی آنکھ نہ کھولی،
تو سوڈان کا نام صرف ایک نوحہ رہ جائے گا —
ایک ایسا نوحہ جسے کوئی سننا نہیں چاہتا،
مگر جو صدیوں تک چیختا رہے!

Leave a Reply