جاپان کے سابق وزیرِاعظم کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزم کا عدالت میں اعتراف جرم

جاپان کے سابق وزیرِاعظم شنزو آبے کو قتل کرنے والے ملزم نے منگل کے روز اعتراف جرم کر لیا، 3 سال قبل قتل کی یہ واردات دن دیہاڑے پیش آئی تھی، جس نے دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق 45 سالہ تتسویا یاماگامی پر قتل اور اسلحہ کنٹرول قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے گئے تھے، ملزم پر الزام ہے کہ اس نے ایک خودساختہ ہتھیار سے جاپان کے سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے رہنما کو جولائی 2022 میں فائرنگ کر کے قتل کیا تھا۔

ملزم نے عدالت میں اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ ’سب کچھ سچ ہے‘۔

یاماگامی کو جولائی 2022 میں جائے وقوعہ سے گرفتار کیا گیا تھا، جب اس نے مبینہ طور پر نارا شہر میں انتخابی مہم کے دوران تقریر کرتے ہوئے شنزو آبے پر خودساختہ بندوق سے فائرنگ کی تھی۔

مقامی میڈیا کے مطابق، یاماگامی نے آبے کو یونیفیکیشن چرچ کے فروغ کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا، اُسے ایک مذہبی گروہ کے خلاف غصہ تھا، کیوں کہ اس کی والدہ نے مبینہ طور پر اس تنظیم کو تقریباً 100 ملین ین (6 لاکھ 63 ہزار امریکی ڈالر) کا چندہ دیا تھا۔

یونیفیکیشن چرچ 1954 میں جنوبی کوریا میں قائم ہوا تھا، یہ اپنی اجتماعی شادیوں کے لیے مشہور ہے اور جاپان میں اس کے ماننے والے اس کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔

نارا ضلعی عدالت کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ابتدائی عدالتی کارروائیوں کے بعد، یاماگامی قتل کے الزام کو تسلیم کرنے والا ہے، لیکن وہ اسلحہ اور بارود کے کنٹرول سے متعلق الزامات کے کچھ حصوں سے اختلاف کرے گا۔

اس قتل کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ شنزو آبے کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے 100 سے زائد ارکان کے چرچ سے روابط تھے، جس کی وجہ سے حکمران جماعت کی عوامی حمایت میں نمایاں کمی آئی تھی، پارٹی کی قیادت اب تاکائچی کے ہاتھ میں ہے۔

منگل کو جاپان کے مقامی وقت کے مطابق دوپہر 2 بجے شروع ہونے والے پہلے عدالتی سیشن کے بعد، سال کے اختتام تک مزید 17 سماعتیں ہوں گی، اور فیصلہ 21 جنوری 2026 کو سنایا جائے گا۔

Leave a Reply