عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ بھارت نے کھانسی کے زہریلے شربتوں کی فروخت روکنے میں کچھ پیش رفت ضرور کی ہے، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق بھارت میں مقامی طور پر تیار کردہ کھانسی کی ایک دوا پینے کے بعد کم از کم 24 بچے ہلاک ہوگئے تھے۔
یہ بچے سریسان فارما کی بنائی گئی کولڈرف (Coldrif) نامی کھانسی کی دوا پینے کے بعد ہلاک ہوئے تھے، ٹیسٹوں میں ان شربتوں میں ڈائی ایتھائلین گلائیکول نامی زہریلے کیمیکل کی مقدار اجازت یافتہ حد سے 500 گنا زیادہ پائی گئی تھی۔
یہ سانحہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب صرف دو سال پہلے دنیا بھر میں کم از کم 300 بچوں کی اموات کے بعد بھارت اور انڈونیشیا میں تیار ہونے والے شربتوں میں انہی زہریلے مادوں کی موجودگی پر عالمی سطح پر اصلاحات اور نگرانی سخت کرنے کے وعدے کیے گئے تھے۔
تاہم، ڈبلیو ایچ او کے مطابق نفاذ کے مسائل اب بھی برقرار ہیں، ڈبلیو ایچ او کے عہدیدار روٹینڈو کووانا نے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے کچھ پیشرفت توکی ہے۔‘
ان کا اشارہ بھارت کے اُس نئے قانون کی طرف تھا جس کے تحت برآمد سے پہلے ادویات میں ڈائی ایتھائلین گلائیکول اور ایتھائلین گلائیکول جیسے زہریلے مادوں کی جانچ لازمی قرار دی گئی ہے۔
تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ مقامی طور پر فروخت ہونے والے شربتوں کے لیے ایسا کوئی قانون موجود نہیں، جسے ڈبلیو ایچ او نے ایک ’ ریگولیٹری خلا’ قرار دیا ہے۔
روٹینڈو کووانا نے مزید کہا کہ ’ یہ ایک جاری عمل ہے، بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، یہ ایک بڑی منڈی ہے، جہاں ہزاروں کارخانے اور بہت سی ریاستیں شامل ہیں۔’
گزشتہ ہفتے رائٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ بھارتی حکومت یہ برآمدی قانون ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جب تک کہ کمپنیاں سال کے آخر تک اپنی فیکٹریاں بین الاقوامی معیار کے مطابق اپ گریڈ کر لیں۔
بھارت کی وزارتِ صحت اور سینٹرل ڈرگز اسٹینڈرڈ کنٹرول آرگنائزیشن (سی ڈی ایس سی او) نے اس منصوبے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
سریسان فارما کے نمائندگان نے بھی بار بار کی گئی ٹیلی فون کالز کا جواب نہیں دیا۔
ڈبلیو ایچ او کے ترجمان نے پیر کو ای میل کے ذریعے کہا کہ ادارہ دوا کے معیار بہتر بنانے کے لیے کیے جانے والے تمام اقدامات کا خیر مقدم کرتا ہے۔
تاہم، برآمدی جانچ ختم کرنے کے منصوبے سے متعلق سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ’ ادویات، بشمول خام مال، کو صرف اختتامی مرحلے پر نہیں بلکہ پورے پیداواری عمل کے دوران جانچنا چاہیے۔’
قانون کے مطابق بھارتی دوا ساز اداروں پر لازم ہے کہ وہ ہر بیچ کے خام مال اور تیار شدہ دوا کا ٹیسٹ کریں، لیکن سی ڈی ایس سی او نے اکتوبر میں کہا کہ کچھ کمپنیاں ایسا نہیں کر رہیں۔
روٹینڈو کوانا نے بتایا کہ پاکستان سمیت کئی ممالک نے ڈبلیو ایچ او کی تربیت میں حصہ لیا ہے، جس میں ان زہریلے مادوں کی جانچ کا طریقہ سکھایا گیا، اور ایک نیا، کم خرچ ٹیسٹ بھی تیار کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کے نمائندے اس تربیت میں شریک نہیں ہوئے تھے، تاہم بھارت نے ڈبلیو ایچ او کو تصدیق کی ہے کہ وہ یہی نیا طریقہ استعمال کر رہا ہے۔
روٹینڈو کووانا کے مطابق پچھلے واقعات میں جواب دہی کا فقدان بھی تشویشناک ہے، جسے انہوں نے ’ بڑی مایوسی’ قرار دیا، بیرونِ ملک بچوں کی اموات کے باوجود بھارت میں اب تک کسی کو قید نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ صرف جعلی جوتے بیچنے جیسا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ایک اخلاقی مسئلہ ہے، اگر آپ قوانین پر عمل نہیں کرتے تو یہ فوجداری جرم ہے، کیونکہ اس کے نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔‘
