خیبرپختونخوا میں عسکریت پسندی بہت پھیل گئی، کنٹرول کرنے کیلئے طاقت استعمال کرنی چاہیے، فضل الرحمٰن

سربراہ جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں عسکریت پسندی بہت پھیل گئی ہے، اس کو کنٹرول کرنے لیے طاقت استعمال کرنی چاہیے۔

چنیوٹ میں جامعہ عربیہ ختم نبوت میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان دو برادر اسلامی پڑوسی ملک ہیں اور دو ہزار600 کلو میٹر کی ایک سرحد ہمارے بیچ میں ہے اور اس سرحد کے آر پار ایک ہی قوم پشتون رہتی ہے۔

افغانستان کے حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ وہاں پر حالات کبھی پرسکون رہے ہی نہیں، ایک پچاس سالہ طویل اضطراب اورعدم استحکام کا دور ہے ، اب اگر ایک حکومت وہاں وجود میں آئی ہے تو اس کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری اور ان کے درمیان کوئی شکایات کا سلسلہ چل سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہاں سے نوجوان آتے ہیں کالعدم ٹی ٹی پی کی صورت میں یا افغان نوجوان اور پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں، یقیناً یہ ایک بڑی شکایت ہے پاکستان کی، اور صرف پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور فوج کی نہیں عوام کی بھی شکایت ہے لیکن طاقت کے ذریعے رعب و دبدبے کے حوالے سے ہم یہ سوچیں کہ مسئلہ حل ہو جائے گا، ہمیں ایک چیز واضح کر دینی چاہیے کہ جہاں ہم اپنی آزادی اور خود مختاری کو کسی قیمت پر کمپرومائز نہیں کر رہے، ہمیں افغانستان کی خود مختاری اور آزادی کو بھی کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے، اور نہ ہی خواہش رکھنی چاہئے کہ ہم اپنی بالا دستی ان پر قائم رکھیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ کوئی جذباتی بات نہیں کررہے، ہم ملک کے ساتھ کھڑے ہیں، ہر قدم ملک کے مفاد میں اٹھائیں گے۔

خیبرپختونخوا کی صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عام آدمی اس وقت گھر سے باہر نہیں جاسکتا، گاؤں سے باہر نہیں جاسکتا، اس ساری صورتحال کو کنٹرول کرنا، یہ بڑا چیلنج ہے، اور خاص طور پر خیبرپختونخوا میں جو عسکریت پسندی ہے، بہت پھیل گئی ہے، وہاں پر ہمیں طاقت استعمال کرنی چاہیے۔

فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں ایک بار پھر انہوں نے فلسطینیوں کے ہاتھ باندھنے اور اسرائیل کے ہاتھ کھولنے کی کوشش کی ہے، وہ اب بھی بمباریاں کر رہے ہیں، اب بھی فلسطینی شہید ہو رہے ہیں، سیز فائر کے باوجود ہو رہے ہیں تو فلسطینیوں کو تو سیز کر دیا گیا اور اسرائیل کو فائر کے لیے چھوڑ دیا تو اس طرح تو سیز فائر نہیں ہوتا ۔

انہوں نے کہا کہ تو اس سارے صورتحال میں ہمارے حکمرانوں نے سوائے اس کے کہ ہم بہت جلدی کریں ٹرمپ کی خوش آمد کرنے میں اور ڈیڑھ دو لاکھ فلسطینیوں کی شہادتوں سے جو ان کی انگلیاں سرخ ہیں اور ان سے ان کا خون ٹپک رہا ہے ان کے لیے امن کے نوبیل انعام کی بات کرنا مجھے سمجھ میں نہیں آرہی کہ ہم کس چیز کی سیاست کر رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو دیکھیں پہلی مرتبہ امریکا کی داخلی سیاست وہ باہر کی دنیا پر نافذ ہو رہی ہے کہ بائیڈن بھارت کے قریب تھا تو ٹرمپ ہندوستان سے دور ہو گیا، بائیڈن پاکستان سے دور تھا تو ٹرمپ پاکستان کے قریب آ گیا تو اس طریقے سے جہاں ان کی خارجہ پالیسی جو ہے، اس میں کوئی فرق نہیں آیا کرتا تھا پہلی مرتبہ اس میں کچھ چینجز نظر آ رہی ہیں، لیکن اگر ہم اتنی سی بات پر ایسے فیصلے کریں جس سے چین جیسا دوست ہم پر اعتماد کھو بیٹھے تو یہ بہت بڑی قیمت ہے جو ہم ادا کر رہے ہیں، اس مسئلے کے لیے اتنی بڑی قیمت ہمیں ادا نہیں کرنی چاہیے، ہمیں چین کے ساتھ اپنے تعلقات اور اگر وہ سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تو اسے تسلسل دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کہ ہم نے ایران پر الزام لگایا ہے اور بار بار لگایا ہے کہ علیحدگی پسند جو ہیں وہ ایران میں رہ رہے ہیں وہاں ان کی تربیت ہو رہی ہے تو پھر ایران اور افغانستان دونوں کے ساتھ رویوں میں فرق کیوں ہے؟

نومبر میں تحریک انصاف کے مارچ کے حوالے سے سوال کے جواب میں سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ تحریک انصاف کے اپنے ایونٹس ہیں اور ہمارے اپنے ایونٹس ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم حکومت پنجاب کی جانب سے آئمہ کرام کیلئے کے لیے 25 ہزار روپے کے وظیفے کو مسترد کرتے ہیں بلکہ 25 لاکھ کو بھی مسترد کریں گے، علمائے کرام کو خریدنا ہمیشہ سے حکمرانوں کا وتیرہ رہا ہے، ہم نے عمران خان کے دور میں خیبر پختونخوا میں اس آفر کو ٹھکرایا تھا ہم آج بھی اس آفر کو ٹھکرارہے ہیں۔

Leave a Reply