روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اعلیٰ حکام ایٹمی ہتھیاروں کے ممکنہ تجربے کے لیے تجاویز دینے کے ہدایت دےد ی، ایک ایسا قدم جو 1991 میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے روس نے نہیں اٹھایا۔
غیر ملکی خبر رساں ’رائٹرز‘ یہ حکم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گزشتہ ہفتے اس اعلان کے جواب میں دیا گیا کہ امریکا ایٹمی تجربات دوبارہ شروع کرے گا، ماہرین کے مطابق یہ پیش رفت دنیا کی دو سب سے بڑی ایٹمی طاقتوں (روس اور امریکا) کے درمیان کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافے کا اشارہ ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے سرکاری ٹیلی ویژن پر خطاب میں کہا کہ میں وزارتِ خارجہ، وزارتِ دفاع، خفیہ ایجنسیوں اور متعلقہ سول اداروں کو ہدایت دیتا ہوں کہ اس معاملے پر اضافی معلومات اکٹھا کریں، قومی سلامتی کونسل میں اس کا تجزیہ کریں، اور ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کی تیاری کے ممکنہ آغاز پر متفقہ تجاویز پیش کریں۔
واضح رہے کہ گزشتہ چند ہفتوں میں روس اور امریکا کے تعلقات تیزی سے بگڑ گئے، یوکرین کی جنگ کے خاتمے کے لیے پیش رفت نہ ہونے پر مایوس ٹرمپ نے پیوٹن کے ساتھ طے شدہ سربراہی اجلاس منسوخ کر دیا تھا اور جنوری میں وائٹ ہاؤس میں واپسی کے بعد پہلی بار روس پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
پیوٹن نے یہ ہدایت سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران دی، جہاں پارلیمانی اسپیکر ویچسلاو وولوڈن نے ایجنڈے سے ہٹ کر پوچھا کہ ماسکو امریکی ایٹمی تجربات کے منصوبے پر کیا ردِعمل دے گا (33 سال بعد پہلا امریکی تجربہ ہوگا)، یہ سوال بظاہر فوری معلوم ہوا، مگر اس نے کئی پہلے سے تیار بیانات کو جنم دیا۔
وزیرِ دفاع آندرے بیلوسوف نے پیوٹن کو بتایا کہ امریکی اقدامات اور بیانات کے پیشِ نظر فوری طور پر مکمل پیمانے پر ایٹمی تجربات کی تیاری مناسب ہوگی، انہوں نے کہا کہ روس کی آرکٹک ٹیسٹنگ سائٹ نووایا زِملیا ایسے تجربات قلیل مدت میں کرانے کے لیے تیار ہے۔
سربراہ جنرل اسٹاف ویلے ری گیراسیموف نے ولادیمیر پیوٹن کو خبردار کیا کہ اگر ہم نے ابھی مناسب اقدامات نہ کیے تو امریکا کی کارروائیوں کے بروقت جواب کے مواقع ضائع ہو جائیں گے، کیونکہ ایٹمی تجربات کی تیاری میں ان کی نوعیت کے لحاظ سے کئی ماہ سے کئی سال لگ سکتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے اسلحہ بندی تحقیق کے سینئر محقق آندرے بکلِتسکی نے ایکس پر لکھا کہ یہ عمل اور ردِعمل کا کلاسیکی منظر ہے، کوئی بھی ایسا نہیں چاہتا، مگر پھر بھی ہم اس کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے مطابق ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد کے لحاظ سے روس اور امریکہ سب سے بڑی طاقتیں ہیں، جن کے بعد چین، فرانس، برطانیہ، بھارت، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا کا نمبر آتا ہے۔
روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ ولادیمیر پیوٹن نے حکام کو تجاویز کی تیاری کے لیے کوئی مخصوص مدت نہیں دی۔
