برطانوی ارکانِ پارلیمنٹ نے پیر کو حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شہزادہ اینڈریو کے شاہی خطابات باضابطہ طور پر واپس لے، کیونکہ شاہی خاندان ان پر الزامات سے بھرپور مبینہ متاثرہ خاتون ورجینیا جوفری کی آنے والی خودنوشت سے پیدا ہونے والے نئے بحران سے نمٹنے کی تیاری کر رہا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق شہزادہ اینڈریو کی شہرت پہلے ہی امریکی مجرم جیفری ایپسٹین کے ساتھ ان کی دوستی کے باعث شدید متاثر ہو چکی تھی، جو جنسی جرائم کے الزام میں سزا یافتہ تھا، بکنگھم پیلس نے جمعے کو عندیہ دیا کہ اب وہ مزید برداشت نہیں کرے گا، اور بادشاہ چارلس سوم کے دباؤ پر شہزادہ اینڈریو نے اپنا خطاب ’ڈیوک آف یارک‘ ترک کرنے کا اعلان کیا۔
چارلس کے بیٹے اور ولی عہد شہزادہ ولیم سے بھی اس فیصلے پر مشاورت کی گئی اور برطانوی میڈیا کے مطابق وہ مستقبل میں بادشاہ بننے کے بعد اپنے چچا کو شاہی زندگی سے مزید دور رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں تاج پوشی کی تقریب سے بھی الگ رکھنے کا امکان ہے۔
65 سالہ شہزادہ اینڈریو، جنہوں نے ہمیشہ کسی بھی غلط کام سے انکار کیا ہے، نے 2022 میں ورجینیا جوفری کے ساتھ ایک دیوانی مقدمہ ختم کرنے کے لیے کئی ملین ڈالرز کا تصفیہ کیا تھا۔
ورجینیا جوفری کی کتاب ’نو باڈیز گرل‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایپسٹین نے انہیں کم عمری میں انسانی اسمگلنگ کے ذریعے شہزادہ اینڈریو کے پاس بھیجا، اور انہیں 17 سال کی عمر میں 3 بار شہزادے کے ساتھ جنسی تعلق پر مجبور کیا گیا، شہزادہ اینڈریو ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس خاتون سے کبھی نہیں ملے، تاہم ’بی بی سی‘ نے شاہی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ بکنگھم پیلس ’مزید تکلیف دہ دنوں‘ کے لیے تیار ہو رہا ہے۔
اینڈریو سے متعلق تنازعات شاہی خاندان کے لیے طویل عرصے سے شرمندگی کا باعث بنے ہوئے ہیں، جبکہ جوفری کی کتاب اس وقت منظر عام پر آنے والی ہے جب بادشاہ چارلس ویٹی کن کے ایک تاریخی دورے پر جا رہے ہیں، جہاں وہ پوپ لیو کے ساتھ خصوصی دعا کریں گے، یہ روایت کئی صدیوں بعد بدلی جا رہی ہے۔
متعدد ارکانِ پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ صرف شہزادہ اینڈریو کے اپنی مرضی سے خطاب نہ استعمال کرنے پر اکتفا نہیں کیا جانا چاہیے، بلکہ پارلیمنٹ کو خود کارروائی کرتے ہوئے ملکہ الزبتھ دوم کے دوسرے بیٹے شہزادہ اینڈریو سے شاہی خطاب واپس لینا چاہیے۔
یارک شہر سے تعلق رکھنے والی رکنِ پارلیمنٹ ریچل ماسکل، جس شہر کے نام پر اینڈریو کو ’ڈیوک آف یارک‘ کا خطاب دیا گیا تھا، نے ایک بل پیش کیا ہے جس کے تحت بادشاہ یا پارلیمانی کمیٹی کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ یہ خطاب مستقل طور پر واپس لے سکیں۔
آزاد رکنِ پارلیمنٹ ماسکل نے کہا کہ وہ اس ہفتے وزرا کو خط لکھ کر اس بل کی حمایت کی درخواست کریں گی۔
ساتھ ہی یہ مطالبات بھی سامنے آئے ہیں کہ شہزادہ اینڈریو سے ’پرنس‘ کا خطاب بھی واپس لے لیا جائے، جو انہیں بطور ملکہ الزبتھ دوم کے بیٹے کے حق میں حاصل ہے۔
ایوانِ بالا کے لیبر رکن جارج فولکس نے اتوار کو ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں دونوں کو خط لکھا، جس میں انہوں نے پارلیمنٹ میں شاہی خاندان سے متعلق سوالات پر عائد قواعد کے ازسرِنو جائزے کا مطالبہ کیا۔
فولکس کے مطابق، ماضی میں جب وہ اینڈریو کے بطور برطانوی خصوصی نمائندہ برائے تجارت و سرمایہ کاری کردار پر سوالات اٹھانا چاہتے تھے تو پارلیمانی عملے نے ان کے سوالات مسترد کر دیے تھے۔
شہزادہ اینڈریو نے 2011 میں متنازع معاملات کے بعد یہ عہدہ چھوڑ دیا تھا، جب کہ 2019 میں وہ سرکاری شاہی ذمہ داریوں سے بھی الگ ہو گئے، اپنا ’ایچ آر ایچ‘ (ہز رائل ہائنس) خطاب واپس کیا اور اب صرف خاندانی تقریبات میں شرکت تک محدود ہیں۔
جارج فولکس نے کہا کہ ’میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا انہیں سیکیورٹی بریفنگ دی گئی تھی، ان کا حقیقی کردار کیا تھا، اور دیگر چند سوالات، مگر مجھے بتایا گیا کہ شاہی خاندان سے متعلق سوالات ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا دونوں میں ممنوع ہیں‘۔
انہوں نے ’گارجین‘ کو بتایا کہ انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، تاہم یونیورسٹی کالج لندن کے ماہرِ آئین پروفیسر رابرٹ ہیزل کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں شاہی خاندان سے متعلق سوالات پر کوئی باضابطہ پابندی موجود نہیں ہے۔

 
                     
                    