وزیرِ دفاع کی حماس کو غیر مسلح کرنے سے متعلق متنازع بیان کی سختی سے تردید

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے حکومتی ترجمان دانیال چوہدری کے اُس متنازع بیان کو سختی سے مسترد اور اس کی مذمت کی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ غزہ امن فورس میں پاکستانی فوج کا کردار حماس کو غیر مسلح کرنا بھی ہوگا۔

جیو نیوز کے پروگرام ’نیا پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے وفاقی پارلیمانی سیکریٹری برائے اطلاعات و نشریات دانیال چوہدری کے متنازع بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ اللہ نہ کرے ایسا کچھ ہو، یہ کس نوعیت کا بیان دیا گیا ؟ ان میں سے کوئی بھی بات نہ تو ہمارا ہدف ہے اور نہ یہ ہمیں زیب دیتی ہے۔

یاد رہے کہ دانیال چوہدری نے 28 اکتوبر کو اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’الیونتھ آر‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان سمیت دیگر ممالک جنہیں امن فورس کا حصہ بنایا جائے گا، اُن کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ یقینی بنائیں کہ وہاں کوئی انتہاپسندی یا تشدد کا واقعہ پیش نہ آئے اور نہ ہی سرحد پار سے کوئی حملہ ہو، پاکستان اس بات کو یقینی بنائے گا۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ غزہ امن فورس میں شامل کسی بھی پاکستانی فوجی کی حفاظت اولین ترجیح ہوگی، ہم اپنا فرض نبھائیں گے، اپنے مسلمان بھائیوں کا تحفظ کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ سرحد پار خلاف ورزی یا دہشت گردی نہ ہو۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا اس مینڈیٹ میں حماس کو غیر مسلح کرنا بھی شامل ہے، تو انہوں نے کہا کہ جی بالکل، اگر (حماس کو) غیر مسلح کیا جائے گا، تب ہی دوسری فورس اپنا کام جاری رکھ سکے گی، معاملات صرف غیر مسلح ہونے کے بعد ہی آگے بڑھیں گے۔

امریکی ثالثی میں طے پانے والے غزہ امن معاہدے کا ایک اہم جزو انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) کا قیام ہے، جس میں زیادہ تر فوجی مسلم ممالک سے ہوں گے، ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے اس حوالے سے جلد اعلان متوقع ہے۔

دانیال چوہدری کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اس فورس کے لیے جو بھی اجتماعی فیصلہ کیا جائے گا، پاکستان اسی پر عمل کرے گا، انہوں نے سوال اٹھایا کہ وفاقی پارلیمانی سیکریٹری کس کے نمائندے کے طور پر امن نافذ کرنے کی بات کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں، میں صاف صاف کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص کسی ٹی وی پروگرام میں ذاتی حیثیت میں اس طرح کے بیانات دے رہا ہے تو یہ نامناسب ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا اس فورس کا کردار واقعی دانیال چوہدری کے بیان کے مطابق ہے، تو انہوں نے کہا کہ میں اس کے حق میں نہیں ہوں، ایسی کوئی بات زیرِ بحث نہیں آئی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اسرائیل کی مسلسل بمباری کے پیش نظر کسی بھی پاکستانی فوجی کو ایسی فورس میں شامل کرنا ایک پیچیدہ صورتحال کا باعث بنے گا؟ تو انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا۔

حساس نوعیت کے اس معاملے پر باخبر حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان مشاورت ’ آخری مراحل‘ میں داخل ہو چکی ہے، ذرائع کے مطابق بات چیت کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام آباد اس مشن میں شمولیت کے حق میں ہے۔

ذرائع کے مطابق آئی ایس ایف کا مینڈیٹ داخلی امن و امان برقرار رکھنا، حماس کو غیر مسلح کرنا، سرحدی گزرگاہوں کی حفاظت اور انسانی امداد و تعمیرِ نو میں تعاون شامل ہوگا، یہ سب ایک عبوری فلسطینی اتھارٹی کی نگرانی میں ہوگا۔

اسلام آباد میں حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ممکنہ شمولیت، اخلاقی ذمہ داری اور سفارتی ضرورت دونوں پر مبنی ہے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ان 8 ممالک میں شامل تھا جنہوں نے 2024 میں امن تجویز تیار کی تھی، جس کی بنیاد پر امریکی ثالثی سے غزہ امن منصوبہ رواں ماہ کے آغاز میں طے پایا۔

چونکہ آئی ایس ایف اس منصوبے کا بنیادی حصہ ہے، حکام کے مطابق اسی لیے پاکستان کی شرکت اس کے تسلسل اور ساکھ کو ظاہر کرے گی، حکومتی حلقوں کا ایک اور مؤقف یہ ہے کہ پاکستان کا عالمی امن مشنز میں کردار اس فورس میں شرکت کے لیے موزوں تجربہ فراہم کرتا ہے۔

پاکستان اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں سب سے زیادہ فوجی فراہم کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، اب تک پاکستان افریقہ، ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں 40 سے زائد آپریشنز میں 2 لاکھ سے زائد اہلکار بھیج چکا ہے۔

اخلاقی اور آپریشنل بنیادوں کے علاوہ، خارجہ پالیسی کے تقاضے بھی حکومت کے اس فیصلے کی تائید کرتے ہیں، ذرائع کے مطابق غزہ امن فورس میں شمولیت سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مزید بہتر ہو سکتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ وائٹ ہاؤس میں آنے کے بعد سے اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات بتدریج بہتر ہو رہے ہیں، حکام کا کہنا ہے کہ امریکی حمایت یافتہ کثیرالملکی منصوبے میں شرکت دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون، دفاعی معاونت اور علاقائی اثر و رسوخ کے نئے مواقع پیدا کر سکتی ہے۔

تاہم حکام نے خبردار کیا کہ تعیناتی کے قانونی فریم ورک پر ابھی وضاحت سامنے نہیں آئی، ایک اہلکار نے کہا کہ ہم ترجیح دیں گے کہ یہ تعیناتی اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت ہو۔

اس کے باوجود، یہ مشن خطرات سے خالی نہیں، غزہ اب بھی ایک غیر مستحکم خطہ ہے اور پاکستان کے اندر عوامی رائے ایک اضافی چیلنج بن سکتی ہے۔

کئی پاکستانی جو فلسطینی کاز کے ساتھ گہری ہمدردی رکھتے ہیں، وہ امریکی منصوبے کے تحت اس امن فورس میں شمولیت کو اسرائیلی مفادات کی خدمت یا فلسطینی مزاحمت سے غداری کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، ایک سرکاری عہدیدار نے کہاکہ یہ ایک مشکل مگر فیصلہ کن انتخاب ہوگا۔

خواجہ آصف نے 28 اکتوبر کو کہا تھا کہ غزہ امن فورس کے لیے پاکستانی فوج بھیجنے کا فیصلہ ابھی زیرِ غور ہے، جس پر حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے۔

دوسری جانب، افغان طالبان کے ساتھ حالیہ معاہدے کے تحت جنگ بندی برقرار رکھنے، آئندہ مذاکرات اور خلاف ورزیوں کی نگرانی کے طریقہ کار پر بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ اس نظام میں طویل المدتی پائیداری کے لیے ممکنہ طور پر دیگر ممالک کو شامل کیا جا سکتا ہے تاکہ 12 یا 15 ماہ بعد اس میں تعطل پیدا نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی سرحدی گزرگاہ سے دہشت گردوں کو ’کھلی چھوٹ دینا‘ دراصل انہیں مدد فراہم کرنے یا ان کے ساتھ ملی بھگت کے مترادف ہے۔

وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ اگر وہ اس کی روک تھام یا نگرانی نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ ان کی رضامندی اور شمولیت دہشت گردوں کے پاکستان میں خون بہانے میں شامل ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا افغان طالبان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ان کی سرزمین کو پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال کر رہی ہے، تو خواجہ آصف نے کہا کہ
وہ ذاتی طور پر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دونوں (طالبان اور ٹی ٹی پی) ایک دوسرے میں ملے ہوئے ہیں اور کالعدم ٹی ٹی پی کی پوری قیادت کابل میں موجود ہے،کابل میں ان کے ٹھکانے یقینا افغان طالبان کی فراہم کردہ پناہ گاہیں ہیں، وہ (ٹی ٹی پی) کسی ہوٹل میں تو نہیں رہ رہے ہوں گے۔

Leave a Reply