وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں ’ امید کی ایک کرن’ نظر آرہی ہے، اگرچہ اس مرحلے پر کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی۔
خیال رہے کہ پاکستانی اور افغان طالبان وفود کے درمیان مذاکرات ہفتے کے روز استنبول میں شروع ہوئے تھے، لیکن اسلام آباد کی طویل عرصے سے جاری تشویش کہ دہشت گرد حملے افغانستان سے ہو رہے ہیں، اختلافِ رائے کی بڑی وجہ بنی، جس کے نتیجے میں مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔
خواجہ آصف نے آج صبح کہا کہ اگر کابل اپنے رویے میں تبدیلی کا اشارہ دیتا ہے تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پار دہشت گردی پر مذاکرات دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام ’ آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ’ میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ جہاں پہلے تمام امیدیں ختم ہو چکی تھیں، اب ’ کچھ آثار نظر آرہے ہیں’، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ وہ کچھ حتمی نہیں کہہ سکتے۔
مذاکرات کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مختلف مسودے تیار کیے جا رہے ہیں، اور جب ایک فریق کسی مسودے سے متفق ہوتا ہے تو اسے دوسرے فریق کو ترمیم کے لیے بھیج دیا جاتا ہے، جس کے بعد وہ دوبارہ نظرثانی کے لیے واپس آتا ہے۔
وزیردفاع نے کہا کہ’ آخرکار ایک معاہدے تک پہنچنے کے لیے مختلف مسودے تبادلے میں ہیں، آپ کہہ سکتے ہیں کہ امید کی کچھ کرن نظر آرہی ہے؛ بہت محتاط انداز میں امید پسندی موجود ہے، امید کرتے ہیں کہ اس سے کوئی نتیجہ نکلے۔’
خواجہ آصف نے کہا کہ ’ قطر اور ترکیہ ہمارے لیے قابل احترام اور خیر خواہ ممالک ہیں، ترکیہ نے پاکستان-بھارت تنازع میں کھلے عام ہمارا ساتھ دیا، اس لیے ہم ان کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ’ جب مذاکرات کے دوران ہماری امید ختم ہو گئی تھی، انہوں نے ہمیں (مذاکرات کاروں کو) ہوائی اڈے سے واپس بلایا، انہوں نے کہا کہ ‘چلیں ایک بار پھر کوشش کرتے ہیں، ’ لہٰذا ایک خاص قسم کی سفارت کاری اب بھی جاری ہے اور مختلف امکانات پر غور کیا جا رہا ہے۔’
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی امید کسی تحریری معاہدے سے متعلق ہے تو وزیر دفاع نے کہا کہ ’ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹ رہے، جو بھی وعدے ہوں گے، وہ تحریری ہوں گے اور ان کی گواہی اور توثیق قطر اور ترکیہ کریں گے، اس میں کوئی شک نہیں۔‘
خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کے برعکس افغان طالبان حکومت کسی حد تک قطر پر انحصار رکھتی ہے کیونکہ خلیجی ملک نے ماضی میں دیگر ممالک کے ساتھ مذاکرات کرانے میں کردار ادا کیا تھا، اس لیے افغانستان کے رہنما کسی حد تک قطر کے ممنون ہیں اور اسے اہمیت دینے پر مجبور ہیں۔
وزیر دفاع نے دہرایا کہ اگر معاہدہ تحریری نہ ہوا تو پاکستان کے لیے ناقابلِ قبول ہوگا۔
جب ان سے امریکی ناظم الامور سے ان کی ملاقات کے بارے میں پوچھا گیا اور یہ کہ کیا مذاکرات میں امریکا کا کوئی پسِ پردہ کردار ہے، تو خواجہ آصف نے کہا کہ یہ موضوع زیرِ بحث نہیں آیا اور ’ یہ ایک معمول کی ملاقات تھی … طویل، خوشگوار ملاقات تھی، مگر سیاسی معاملات پر بات نہیں ہوئی۔’
دریائے کنڑ پر ڈیم کی تعمیر کے معاملے پر افغانستان سے کسی ممکنہ تنازع کے بارے میں پوچھے جانے پر وزیر دفاع نے کچھ کہنے سے گریز کیا، سوائے اس کے کہ پاکستان کے پاس اس معاملے میں ’ اثر و رسوخ’ موجود ہے، انہوں نے کہا کہ’ جو وہ سوچ رہے ہیں اسے سو فیصد پورا نہیں کر سکیں گے۔’
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ کابل یکطرفہ طور پر دریا کو روک کر یا اس کا رخ موڑ کر اسلام آباد کے پانی کے حقوق سے انکار نہیں کر سکتا۔
بعد ازاں ایک پوسٹ میں انہوں نے ایکس پر کہا کہ ’افغانستان وفد کا یہ کہنا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد اصل میں افغان سر زمین پہ پاکستانی پناہ گزین ہیں جواپنے گھروں میں پاکستان واپس جا رہے ہیں، یہ کیسے پناہ گزین جو اپنے گھروں میں انتہائی تباہ کن اسلحہ سے مسلح ہو کر جارہے ھیں اور سڑکوں کے ذریعے بسوں ٹرک یا گاڑیوں پہ سوار نہیں جا رہے بلکہ چوروں کی طرح پہاڑوں میں دشوار گزار رستوں سے پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں، یہ تاویل ہی افغانستان کی نیت کے فتور خلوص سے عاری ہونے کا ثبوت ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مزید خراب ہوئے ہیں،ان کے درمیان سرحدی جھڑپیں ہوئی ہیں اور جوابی بیانات اور ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
سرحد جھڑپوں کا آغاز اس ماہ کے اوائل میں ہوا جب 11 اکتوبر کی رات افغانستان سے پاکستان پر حملہ کیا گیا۔
اسلام آباد طویل عرصے سے طالبان سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روکیں، تاہم طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کو افغان سرزمین سے کام کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
دوسری جانب، پاکستان دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے میں مصروف ہے اور خفیہ معلومات پر مبنی کارروائیوں میں اس کے سیکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد شہید ہوئی ہے۔
11 اکتوبر کی ابتدائی جھڑپ کے بعد پاکستان-افغانستان سرحد پر متعدد جھڑپیں ہوئیں۔ اس دوران، اسلام آباد کے حملوں میں افغانستان میں گل بہادر گروپ کے کیمپوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
بالآخر دونوں ممالک مذاکرات کے لیے دوحہ میں اکٹھے ہوئے، جس کے نتیجے میں ایک عارضی جنگ بندی اور استنبول میں دوبارہ ملاقات کے عہد پر اتفاق ہوا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان دیرپا امن و استحکام کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔
گزشتہ ہفتے، دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور، جس کی ثالثی ترکیہ اور قطر کر رہے تھے، ترکیہ کے دارالحکومت میں شروع ہوا۔
تاہم بدھ کو طارق فاطمی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں اعلان کیا تھا کہ استنبول میں اسلام آباد اور کابل کے درمیان ہونے والا تازہ ترین دور ’ کسی قابلِ عمل حل تک نہیں پہنچ سکا’۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ پاکستان اپنے شہریوں کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات جاری رکھے گا۔

 
                     
                    