گوادر کے ساحل کے قریب برائیڈز وہیلز دیکھی گئیں، ڈبلیو ڈبلیو ایف

ادارہ برائے تحفظ فطرت پاکستان (ڈبلیو ڈبلیو ایف۔ پاکستان) کے مطابق گوادر کے ساحل کے قریب چار برائیڈز وہیلز مچھلیوں کو دیکھا گیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری ایک بیان میں تنظیم نے بتایا کہ یہ وہیلز ایک روز قبل گوادر (دیمی زور) کے قریب مقامی ماہی گیروں نے دیکھیں، جنہوں نے فوراً اس واقعے کی اطلاع ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کو دی، یہ اطلاع ان کے ’ سِٹیزن سائنس’ پروگرام کے تحت دی گئی، جس میں مقامی ماہی گیر سمندری حیات کے مشاہدات رپورٹ کرتے ہیں۔

بیان کے مطابق ’ یہ وہیلز ماہی گیر کشتی کے ناخدا امیر داد کریم، نے اس وقت دیکھیں جب انہوں نے پرسکون سمندر میں حرکت محسوس کی — جو ان کے آپریشن ایریا سے تقریباً 5 کلومیٹر شمال میں تھی۔ قریب جانے پر، انہوں نے بیلین (baleen) وہیلز کے ایک گروپ کو دیکھا، جنہیں بعد میں برائیڈز وہیلز کے طور پر شناخت کیا گیا۔ یہ امکان ہے کہ یہ وہیلز خوراک کی تلاش میں ساحلی پانیوں کی طرف بڑھ رہی تھیں۔’

تنظیم نے وضاحت کی کہ برائیڈز وہیل پاکستان کے پانیوں میں پائی جانے والی تین بیلین وہیل اقسام میں سے ایک ہے — دیگر دو نیلی وہیل (Blue Whale) اور عربی ہمپ بیک وہیل (Arabian Humpback Whale) ہیں۔ یہ گرم اور معتدل سمندروں میں رہتی ہے اور بنیادی طور پر جھنڈوں کی شکل میں رہنے والی مچھلیوں، جیسے ساردین، اینچووی اور میکریل پر گزارہ کرتی ہے — جو پاکستان کے ساحلی علاقوں میں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں۔

مزید کہا گیا کہ یہ نوع بین الاقوامی تنظیم برائے تحفظِ قدرت (IUCN) کی ریڈ لسٹ میں ’ ڈیٹا ڈیفیشنٹ’ (یعنی معلومات کی کمی) کے زمرے میں شامل ہے اور دنیا بھر میں اس پر بہت کم تحقیق کی گئی ہے۔

بیان میں کہا گیا: ’ تمام دیگر سمندری جانوروں کی طرح، انہیں بھی پاکستان کے وائلڈ لائف، فشریز اور بین الاقوامی تجارتی قوانین کے تحت تحفظ دیا گیا ہے۔ ’

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے کہا، ’ ایسے نایاب مناظر ہمیں پاکستان کے ساحلی پانیوں میں موجود زبردست سمندری حیات کی یاد دلاتے ہیں — اور اس بات کی بھی کہ ہمیں انہیں آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھنا چاہیے۔’

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے سمندری جانوروں کے تحفظ کے لیے اپنی کوششوں کو مزید مضبوط کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے ’ سِٹیزن سائنس’ منصوبے کے ذریعے ایک قومی ڈیٹا بینک تیار کیا ہے، جس میں وہیلز، ڈالفنز اور پورپائزز سے متعلق معلومات شامل کی جا رہی ہیں۔ اس منصوبے میں ماہی گیر، سائنس دان اور عوام سمندری زندگی سے متعلق مشاہدات رپورٹ کرتے ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان نے کہا، ’ سٹیزن سائنس ہمیں سمندری انواع کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرتی ہے جو بصورت دیگر ریکارڈ نہ ہو پاتیں۔ یہ حالیہ مشاہدہ ایک صحت مند سمندری نظام کی امید افزا علامت ہے۔’

پاکستان کے پانیوں میں حالیہ برسوں میں برائیڈز وہیلز کی متعدد بار نشاندہی ہوئی ہے، تاہم ان میں سے کچھ واقعات افسوسناک نتیجے پر ختم ہوئے۔

آخری واقعہ نومبر 2023 میں پیش آیا تھا جب ایک مردہ برائیڈز وہیل جیوانی کے قریب، پاکستان-ایران سرحد کے پاس ملی تھی ۔ اسی علاقے میں مئی 2023 میں ایک اور وہیل پھنس گئی تھی۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سینئر ڈائریکٹر برائے حیاتیاتی تنوع، رب نواز، نے سمندری تحفظ کی کوششوں میں ساحلی برادریوں کی فعال شمولیت کو سراہا۔

انہوں نے کہا، ’ سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیروں نے سمندری ممالیہ کے بارے میں معلومات فراہم کر کے اور اپنی ماہی گیری کے طریقوں کو، وہیل اور ڈولفن کو جال میں پھنسنے سے بچانے کے لیے، تبدیل کرکے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کا تعاون اس بات کی بہترین مثال ہے کہ مقامی علم خطرے سے دوچار انواع کے تحفظ میں کس قدر مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔’

1970 میں قائم ہونے والا ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان ملک کا سب سے بڑا ماحولیاتی ادارہ ہے، جس کے 32 دفاتر میں 300 سے زائد عملہ کام کرتا ہے۔ اس کے جاری منصوبوں کا مقصد حیاتیاتی تنوع کا تحفظ، پائیدار ماہی گیری کو فروغ دینا، اور پاکستان کے ساحلی و سمندری ماحولیاتی نظام کی طویل المدتی صحت کو یقینی بنانا ہے۔

Leave a Reply