پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی (پی اے اے) نے اعلان کیا ہے کہ کراچی اور لاہور کے فضائی روٹس میں آئندہ ہفتے کے لیے چند پروازوں کے راستوں میں تبدیلی کی جا رہی ہے تاکہ ’فضائی ٹریفک کی مسلسل حفاظت اور مؤثر انتظام‘ کو یقینی بنایا جا سکے۔
پی اے اے کی جانب سے جاری نوٹم کے مطابق یہ پابندیاں 28 اکتوبر 2025 بروز منگل صبح 5 بج کر ایک منٹ سے مؤثر ہوں گی اور بدھ 29 اکتوبر 2025 صبح 9 بجے تک برقرار رہیں گی۔
نوٹم میں مزید کہا گیا کہ یہ ایک معمول کی حفاظتی اور عملی نوعیت کی کارروائی ہے، یہ قدم ‘آپریشنل وجوہات’ کی بنیاد پر اٹھایا جا رہا ہے تاکہ فضائی ٹریفک کے مؤثر انتظام اور حفاظت کو برقرار رکھا جا سکے۔
دوسری جانب، اوپن سورس ٹریکر ڈیمین سائمن (غیر خبر رساں ادارے رائٹرز نے بھی ماضی میں حوالہ دیا ہے) نے بتایا کہ بھارتی فضائی حکام نے ایک روز قبل نوٹم جاری کیا ہے، جو ممکنہ طور پر کسی فوجی مشق یا ہتھیاروں کے تجربے کے لیے ہے، کیونکہ بھارت اپنی تینوں مسلح افواج کی مشترکہ مشق کی تیاری کر رہا ہے۔
ٹریکر کے مطابق بھارت نے پاکستان کی مغربی سرحد کے ساتھ 30 اکتوبر سے 10 نومبر تک کے لیے نوٹم جاری کیا ہے، اور کہا ہے کہ ’منتخب کردہ علاقہ اور سرگرمی کا پیمانہ غیر معمولی ہے۔‘
اس کے ساتھ شیئر کردہ نقشے میں دکھایا گیا ہے کہ فوجی مشق کا علاقہ بھارتی ریاست راجستھان کے شہر جیسلمیر سے لے کر سرکریک کے متنازع دلدلی علاقے تک پھیلا ہوا ہے۔
یہ علاقہ دہائیوں سے دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان تنازع کا باعث رہا ہے، اور سمندری سرحدی مسئلے پر مذاکرات تاحال غیر نتیجہ خیز رہے ہیں۔
بھارتی نیوز ادارے فرسٹ پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ نوٹم ’پاکستان کی سرحد کے ساتھ ایک بڑی فوجی مشق‘ کے لیے جاری کیا گیا ہے، جو آپریشن سندور کے بعد بڑھتی کشیدگی کے دوران ہو رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ مشق بھارتی فوج کی تین برانچوں مشتمل ہوگی، جس کا مقصد ملک کی ’مشترکہ عسکری صلاحیت، خود انحصاری اور جدت‘ کا مظاہرہ کرنا ہے۔
بھارتی وزارتِ دفاع کے حوالے سے بتایا گیا کہ ’سدرن کمانڈ کے دستے مختلف اور مشکل جغرافیائی علاقوں میں مشترکہ آپریشنز کی تصدیق کے لیے سرگرم طور پر حصہ لیں گے، جن میں سرکریک اور صحرائی علاقوں میں جارحانہ کارروائیاں، سوراشٹرا کے ساحل پر سمندری آپریشنز اور انٹیلیجنس، نگرانی، الیکٹرانک وارفیئر اور سائبر صلاحیتوں پر مبنی مشترکہ مشقیں شامل ہوں گی۔‘
سی این بی سی ٹی وی 18 نے رپورٹ کیا کہ یہ مشق بھارتی مسلح افواج کے درمیان باہمی ہم آہنگی کو مضبوط بنانے اور ’مستقبل کے ممکنہ جنگی حالات کے لیے تیاری کو بہتر کرنے‘ کی علامت ہے۔
یاد رہے کہ ٹرمپ بارہا یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ رواں سال مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ بندی انہی کی ثالثی سے ممکن ہوئی، حالانکہ بھارت نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔
دوسری جانب، وزیراعظم شہباز شریف نے ٹرمپ کی ’قیادت اور فعال کردار‘ کو سراہا ہے، جنہوں نے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان امن بحال کرنے میں مدد کی۔
مئی 2025 میں کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک حملے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں شدید اضافہ ہوا، بھارت نے 7 مئی کو ’آپریشن سندور‘ کے تحت پاکستان میں حملے کیے تھے، جن میں عام شہری بھی جاں بحق ہوئے تھے۔
بھارت نے حملے کا الزام پاکستان پر لگایا مگر کوئی ثبوت پیش نہیں کیا، اس کے جواب میں پاکستان نے ’آپریشن بنیان مرصوص‘ کے نام سے جوابی کارروائی کی تھی اور رافیل سمیت 6 جنگی جہاز گرائے تھے، بعد ازاں امریکی قیادت میں ثالثی کے بعد جنگ بندی عمل میں آئی تھی۔
اس کے بعد سے بھارتی سیاسی و عسکری قیادت کے بیانات مسلسل جارحانہ رہے ہیں، جن میں پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات دہرائے گئے، اور مستقبل میں ’جغرافیائی تبدیلی‘ کی دھمکیاں بھی شامل ہیں۔
بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 30 مئی کو کہا تھا کہ بھارت کسی بھی آئندہ جارحیت کی صورت میں اپنی بحری طاقت کا استعمال کرے گا۔
پاکستانی فوج نے ان بیانات کو ’بولی وڈ طرز کے فرضی بیانیے‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت ’تاریخ کو اپنے انداز میں گھڑنے‘ کی کوشش کر رہا ہے۔
پاک فوج نے خبردار کیا تھا کہ ’بھارت کی جانب سے کسی نئی جارحیت کی صورت میں خطے کو تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اگر بھارت نے کسی بھی نئے تصادم کی شروعات کی، تو پاکستان پیچھے نہیں ہٹے گا، ہم بھرپور اور فوری جواب دیں گے۔
