پنجاب کو 2 صوبوں میں گندم کی فراہمی روکنے کے الزام میں تنقید کا سامنا

پنجاب حکومت کو گندم کی بین الصوبائی نقل و حمل پر پابندی کے فیصلے کے بعد شدید تنقید کا سامنا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت نے جمعرات کو پنجاب سے کہا کہ وہ صوبوں کے درمیان گندم اور آٹے کی نقل و حمل پر عائد پابندیاں واپس لے اور خبردار کیا کہ یہ پابندیاں سپلائی چین کو متاثر کر رہی ہیں، قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہیں اور صوبے میں غذائی تحفظ کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔

ادھر سندھ میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی پنجاب حکومت پر تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ گندم کے بیج کی سپلائی محدود کر رہی ہے۔

خیبر پختونخواہ کے فوڈ سیکریٹری نے اپنے پنجاب ہم منصب کو خط میں کہا کہ پابندی ہٹانا سپلائی چین کو درست کرنے، مارکیٹ کی قیمتوں کو مستحکم کرنے اور صوبے کے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔

خط میں کہا گیا کہ گندم کی کمی کا شکار صوبہ کے پی کے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے پنجاب سے روزانہ تقریباً 14 ہزار 500 ٹن کی بین الصوبائی سپلائی پر انحصار کرتا ہے، موجودہ پابندیاں صوبے میں گندم اور آٹے کی آمد و رفت کو شدید متاثر کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں غذائی دستیابی کو خطرہ لاحق ہے اور مارکیٹ کی قیمتیں غیر مستحکم ہو رہی ہیں۔

اگرچہ خیبر پختونخوا نے پنجاب کی جانب سے حال ہی میں 2 ہزار ٹن آٹے کی پرمٹ کے تحت صوبے کو سپلائی کی منظوری کا اعتراف کیا، لیکن اسے حقیقی ضروریات کے مقابلے میں ناکافی قرار دیا۔

خیبر پختونخوا نے افسوس ظاہر کیا کہ چیف سیکریٹری، فوڈ سیکریٹری اور فوڈ ڈائریکٹر کی طرف سے پنجاب کو بار بار خطوط کے باوجود پابندی برقرار ہے۔

خط میں لکھا گیا کہ ہے یہ صورتحال آئین پاکستان کے آرٹیکل 151 (1) کی دفعات کے مطابق نہیں ہے، جو صوبوں کے درمیان تجارتی آزادی اور ملک بھر میں مال کی نقل و حرکت کی ضمانت دیتا ہے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ یہ مسئلہ 17 اکتوبر کو وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں بھی اٹھایا گیا تھا، جس میں عبوری گندم پالیسی 2025 کے حوالے سے صوبوں کے درمیان گندم اور اس کی مصنوعات کی آزادانہ نقل و حرکت پر زور دیا گیا۔

کے پی فلور ملز ایسوسی ایشن نے بار بار گندم کے تیزی سے ختم ہونے والے ذخائر پر سنگین خدشات کا اظہار کیا ہے اور انتباہ دیا ہے کہ اگر پابندیاں برقرار رہیں تو آئندہ دنوں میں گندم اور آٹے کی کمی پیدا ہو سکتی ہے۔

بدھ کو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی نے پنجاب کی جانب سے صوبے کو گندم اور آٹے کی نقل و حمل پر عائد پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ آئین کی خلاف ورزی اور صوبے کے عوام کے حقوق پر حملہ ہے۔

وزیر اعلیٰ کے دفتر نے بیان میں بتایا سہیل آفریدی نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے محکمہ خوراک کے اعلیٰ حکام کو ہدایت دی کہ وہ پنجاب حکومت کو خط لکھیں اور فوری طور پر تمام پابندیاں ختم کرنے کا کہیں، تاکہ گندم اور آٹے کی آزادانہ نقل و حمل ممکن ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ شہریوں کو بنیادی ضروریات سے محروم کرنے کے لیے سیاسی اختلافات کے پیچھے چھپنا ناقابل قبول ہے۔

حکام نے اجلاس میں بتایا کہ خیبر پختونخوا سالانہ تقریباً 53 لاکھ ٹن گندم اور آٹے استعمال کرتا ہے، جس میں سے صرف 15 لاکھ ٹن مقامی طور پر پیدا ہوتی ہے، جب کہ باقی پنجاب اور دیگر صوبوں سے حاصل کی جاتی ہے۔

ادھر بظاہر اتحادی جماعتوں کے درمیان امن قائم ہونے کے باوجود، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان تناو دوبارہ بڑھ گیا ہے، پنجاب حکومت نے مبینہ طور پر سندھ کو گندم کے بیج کی سپلائی روک دی ہے جس پر پیپلز پارٹی نے شدید احتجاج کیا اور وزیراعظم کی فوری مداخلت کا مطالبہ کیا۔

پیپلز پارٹی سندھ کے صدر اور صوبائی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئر مین نثار کھوڑو نے وفاقی اور پنجاب حکومتوں پر سندھ مخالف ہونے کا الزام لگایا اور وزیراعظم شہباز شریف سے فوری نوٹس لینے کی اپیل کی۔

ان کے مطابق جیسے ہی گندم کی بوائی کا موسم شروع ہوتا ہے، پنجاب ایگریکلچر ریگولیٹری اتھارٹی اور محکمہ خوراک نے، پنجاب حکومت کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مبینہ طور پر سندھ کو لاکھوں بیج کے تھیلے فراہم کرنے سے روک دیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس تعطل نے شدید خدشات پیدا کیے ہیں کہ سندھ کے وسیع علاقوں میں گندم کی کاشت متاثر ہو سکتی ہے، اگر پنجاب فوراً سندھ کو بیج کی سپلائی دوبارہ شروع نہ کرے تو صوبے کی مجموعی گندم کی پیداوار میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔

بدھ کو پیپلز پارٹی نے گندم کی کم از کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) فی من 3 ہزار 500 روپے کے حالیہ اعلان کے بعد گندم کی خریداری کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے، جس سے دونوں فریقین کے درمیان شدید ردعمل پیدا ہوا اور پنجاب حکومت نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔

وفاقی وزیر خوراک نے مئی میں قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ مارکیٹ ڈی ریگولیشن پالیسی کے تحت پاسکو کو ختم کیا جا رہا ہے، اس پالیسی کو بعد میں قومی گندم پالیسی کے تحت واپس لیا گیا، لیکن خریداری کے طریقے ابھی بھی متنازع ہیں۔

اسی پس منظر میں پی پی پی پنجاب کے سیکریٹری جنرل حسن مرتضیٰ نے بدھ کو پریس کانفرنس میں پوچھا کہ پاسکو کی خاتمے کے بعد گندم کون خریدے گا اور کس طریقہ کار کے تحت؟ انہوں نے کہا کہ کسان درمیانی افراد کی نرمی کے رحم و کرم پر ہیں جو ایم ایس پی سے کم ادا کرتے ہیں۔

اس بیان پر پنجاب حکومت کی جانب سے شدید ردعمل آیا، صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے پیپلز پارٹی کی قیادت سے کہا کہ وہ حسن مرتضیٰ کے بیانات پر نوٹس لیں، بصورت دیگر مسلم لیگ (ن) اسی انداز میں جواب دے گی۔

اب دھول تھمنے کے بعد سندھ سے پیپلز پارٹی کی قیادت نے نئے اعتراضات اٹھائے ہیں، جس میں مسلم لیگ (ن) پر الزام لگایا گیا کہ وہ صوبے کے کسانوں سے ان کے حقوق چھین رہے ہیں۔

نثار کھوڑو نے کہا کہ یہ سندھ کے کسانوں کے لیے سنگین ناانصافی ہے اور کاشتکاروں اور ہاریوں کی اقتصادی استحصال کے مترادف ہے، پاکستان سالانہ تقریباً 5 لاکھ 52 ہزار ٹن گندم کے بیج پیدا کرتا ہے، جس میں سے پنجاب کی بیج کمپنیوں کا حصہ تقریباً 5 لاکھ 16 ہزار ٹن ہے، تاہم مبینہ طور پر پنجاب حکومت ان کمپنیوں کو سندھ کو بیج فروخت کرنے سے روک رہی ہے۔

رہنما پیپلز پارٹی کے مطابق سندھ کے کسان اور دکاندار پہلے ہی پنجاب میں موجود سپلائرز کو بیج کی ادائیگی کر چکے ہیں، لیکن سپلائی بلاک کر دی گئی ہے۔

انہوں نے اس اقدام کو سندھ مخالف اور صوبے کے کسانوں کے خلاف امتیازی سلوک قرار دیا۔

Leave a Reply