’غزہ نسل کشی‘ میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ہوشربا انکشافات

طاقتور ممالک نے اس بات کو یقینی بنانے کے بجائے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق اور حقِ خودارادیت کا احترام کرے، ایسے پُرتشدد اقدامات کو روزمرہ کا معمول بنا دیا، فرانسسکا البانیز

اقوام متحدہ کے فلسطین کے لیے خصوصی نمائندے کی آج جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکا، برطانیہ اور جرمنی سمیت 63 ممالک غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی 2 سالہ نسل کشی میں شریک یا معاون رہے ہیں۔

فرانسسکا البانیز کی تیار کردہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے یہ اقدامات اکیلے نہیں بلکہ ’تیسرے فریق ممالک‘ کی مدد سے انجام پائے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں نسل کشی صرف اسرائیل کارروائیوں ہی نہیں بلکہ ایک عالمی شراکتِ جرم کے نظام کا حصہ تھی۔

مزید کہا گیا کہ طاقتور ممالک، جو نوآبادیاتی اور نسلی سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دیتے رہے، انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے بجائے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق اور حقِ خودارادیت کا احترام کرے، ایسے پُرتشدد حملوں کو جاری رکھنے کی اجازت دی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی ممالک نے اسرائیل کو مدد اور جواب دہی سے تحفظ فراہم کر کے اسے موقع دیا کہ وہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں اپنے آبادکار نسل پرستانہ نظام کو مزید مضبوط کرے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں نسل کشی کو بین الاقوامی طور پر ممکن بنائے گئے جرم کے طور پر سمجھنا چاہیے، بیشتر مغربی ممالک نے اسرائیل کی نسل کشی کی مہم کو نہ صرف ممکن بنایا بلکہ اسے جائز اور معمول کی کارروائی بنا دیا۔

رپورٹ میں لکھا گیا کہ فلسطینی شہریوں کو ’انسانی ڈھال‘ قرار دے کر اور غزہ پر حملوں کو ’تہذیب و سفاکیت کی جنگ‘ کے طور پر پیش کر کے ان ممالک نے اسرائیلی بیانیے کو تقویت دی اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کو جواز بخشا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف، رودیشیا اور دیگر نوآبادیاتی حکومتوں کے خلاف کیے گئے کامیاب اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے ذریعے انصاف اور حقِ خودارادیت حاصل کی جا سکتی ہے۔

بین الاقوامی عدالتوں کے واضح احکامات کے باوجود اسرائیل کو اس کے دیرینہ جرائم پر جواب دہ نہ ٹھہرانا عالمی برادری کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے۔

مزید کہا گیا کہ ممالک کے پاس بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی روکنے کے لیے کئی اختیارات ہیں، جیسے طاقت کا استعمال، ہتھیاروں اور تجارت پر پابندیاں، محفوظ گزرگاہ سے انکار، اور قانونی کارروائیاں شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، اثرورسوخ رکھنے والے‘ دیگر ممالک کی حمایت نے اسرائیل کو اپنے حملے جاری رکھنے کا موقع دیا، یہ حمایت اسرائیلی بیانیے کو اپنانے اور امریکا کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قراردادوں پر ویٹو کے ذریعے ظاہر ہوئی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیل کو کھیل، ثقافت اور دیگر بین الاقوامی فورمز سے بھی باہر نہیں نکالا گیا۔

اِن ممالک نے صورتِ حال کو ایک انسانی بحران کے طور پر لیا، جسے بس سنبھالنا تھا، نہ کہ حل کرنا اور اسرائیل سے غیر قانونی قبضہ ختم کرنے کا مطالبہ نہ کر کے غزہ پر حملے کے لیے مزید گنجائش پیدا کی۔

فروری 2024 میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی اور نیدرلینڈز نے ایک طرف اسرائیل کے رفح پر حملے کی مذمت کی، لیکن ساتھ ہی یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ بھی روک دی۔

رپورٹ کے مطابق عرب اور مسلم ممالک نے اگرچہ فلسطینیوں کی حمایت کی، لیکن ان کی کوششیں فیصلہ کن ثابت نہیں ہوئیں۔

قانونی کارروائیوں کے حوالے سے بھی پیش رفت نہیں ہوئی، کیونکہ صرف 13 ممالک نے جنوبی افریقہ کے کیس (انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں) کی حمایت کی، جب کہ کئی مغربی ممالک نے مسلسل یہ ماننے سے انکار کیا کہ غزہ میں نسل کشی ہو رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق نسل کشی کے واضح شواہد کے باوجود کئی ممالک اب بھی اسرائیل کے ساتھ ہتھیاروں کی تجارت کر رہے ہیں، اسرائیل اپنی معیشت کا ایک بڑا حصہ ہتھیاروں کی درآمد پر منحصر کرتا ہے، اہم سپلائرز میں امریکا، جرمنی اور اٹلی شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق امریکا اور اسرائیل کے درمیان تیسری مفاہمتی یادداشت (ایم او یو) کے تحت 2028 تک ہر سال 3.3 ارب ڈالر کی فوجی امداد اور 50 کروڑ ڈالر کے میزائل دفاع کے لیے فراہم کیے جاتے ہیں۔

اکتوبر 2023 سے امریکا نے 742 کھیپوں پر مشتمل ہتھیار اور گولہ بارود اسرائیل بھیجے اور اربوں ڈالر کی نئی اسلحہ فروخت کی منظوری دی، اکتوبر 2023 سے اکتوبر 2025 تک 26 ممالک نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی کم از کم 10 کھیپیں بھیجیں، جن میں چین، تائیوان، بھارت، اٹلی، آسٹریا، اسپین، جمہوریہ چیک، رومانیہ اور فرانس شامل ہیں۔

برطانیہ نے اگرچہ براہِ راست ہتھیار فراہم نہیں کیے، مگر اس نے قبرص میں موجود اپنے اڈوں کے ذریعے امریکی سپلائی لائن کو اسرائیل تک پہنچنے دیا اور گزشتہ 2 برسوں میں غزہ پر 600 جاسوسی پروازیں کیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ ممالک نہ صرف اسرائیل کو سہولت فراہم کر رہے ہیں بلکہ غزہ کے عوام تک مناسب امداد نہ پہنچا کر بھی نسل کشی میں شریک ہیں۔

اکتوبر 2023 سے اسرائیل نے مکمل ناکہ بندی نافذ کی، اکتوبر 2023 سے جنوری 2025 کے دوران امدادی ٹرکوں کی روزانہ اوسط تعداد 107 رہی، جو 2023 سے پہلے کی سطح کے ایک تہائی سے بھی کم تھی۔

اگست 2025 تک غزہ میں قحط کی باضابطہ تصدیق ہو چکی تھی۔

اسرائیل کی نسل کشی کی مہم نے جان بوجھ کر انسانی امدادی نظام کو تباہ کیا، جس میں یو این آر ڈبلیو اے کے گوداموں، اسکولوں، کلینکس اور خوراک کے مراکز پر حملے کیے گئے۔

کینیڈا، برطانیہ، بیلجیم، ڈنمارک اور اردن جیسے ممالک نے اسرائیلی ناکہ بندی کے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے فضا سے امداد گرانے (ایئرفورڈ) کی مہنگی، غیر مؤثر اور خطرناک کوششیں کیں۔

مزید کہا گیا کہ بحری امدادی مشن اور شہری تنظیموں کے قافلے جو اسرائیلی محاصرے کو توڑنے کی کوشش کر رہے تھے، انہیں اسرائیل نے بین الاقوامی پانیوں میں غیر قانونی طور پر روکا اور دیگر ممالک خاموش رہے۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی معیشت غیر ملکی تجارت پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، مگر کسی مغربی ملک نے اسرائیل کے ساتھ تجارت بند نہیں کی بلکہ کئی کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوا۔

جرمنی کے ساتھ 836 ملین ڈالر سے زائد، پولینڈ 237 ملین ڈالر، یونان 186 ملین ڈالر، اٹلی 117 ملین ڈالر، ڈنمارک 99 ملین ڈالر، فرانس 75 ملین ڈالر، سربیا 56 ملین ڈالر، متحدہ عرب امارات 237 ملین ڈالر، مصر 199 ملین ڈالر، اردن 41 ملین ڈالر، مراکش6 ملین ڈالر سے زائد ریکارڈ کی گئی۔

صرف کولمبیا نے 2024 میں اسرائیل کو کوئلے کی برآمد پر پابندی لگا کر عملی قدم اٹھایا تھا۔

جب نسل کشی واضح ہو چکی تھی، تب بھی بیشتر مغربی ممالک اسرائیل کو فوجی، سفارتی، معاشی اور نظریاتی مدد فراہم کرتے رہے، حتیٰ کہ جب اسرائیل نے قحط اور انسانی امداد کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔

گزشتہ دو سالوں کے یہ مظالم کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک طویل عرصے سے جاری عالمی شراکتِ جرم کا نتیجہ ہیں، رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کی حمایت میں خاموشی اور غیر جانبدار رویہ رکھنے والے ممالک کو بھی نسل کشی میں شریک یا معاون سمجھا جا سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے نمائندے نے درج ذیل اقدامات کرنے کی سفارش کی۔

جن میں مکمل اور مستقل جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنا اور اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا یقینی بنانا، غزہ کے محاصرے کا فوری خاتمہ اور زمینی و بحری قافلوں کے ذریعے انسانی امداد اور رہائش کی فراہمی، ساتجھ ہی غزہ کا ہوائی اڈہ اور بندرگاہ دوبارہ کھولنا تاکہ امداد مؤثر طریقے سے وہاں پہنچ سکے۔

فلسطینی حقِ خودارادیت کو تسلیم کرنا اور اسے پائیدار امن کی بنیاد قرار دینا، اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی، تجارتی اور سفارتی تعلقات معطل کرنا، ان تمام افراد، اداروں اور کمپنیوں کی تحقیقات و سزا جو نسل کشی، اشتعال انگیزی یا جنگی جرائم میں ملوث ہوں اور غزہ کی تعمیرِ نو اور متاثرین کے معاوضے کے لیے اقدامات اُٹھائے جائیں۔

انٹرنیشنل کریمنل کورٹ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، یو این آر ڈبلیو اے اور اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 6 کے تحت اسرائیل کی رکنیت معطل کرنا شامل ہے۔

یونائٹنگ فار پیس، جنرل اسمبلی ریزولوشن 377 (5) کے تحت کارروائی کر کے اسرائیل کے قبضے کے خاتمے کو یقینی بنانے کی بھی سفارش کی گئی۔

Leave a Reply