استنبول: پاکستان و دیگر اسلامی ممالک کا غزہ سے صہیونی فوج کےفوری انخلا کا مطالبہ

وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان اور دیگر مسلمان ممالک نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی سخت مذمت کی اور قابض اسرائیلی افواج کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ 9 اکتوبر کو حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر اتفاق ہوا تھا، یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس امن منصوبے کا پہلا مرحلہ تھا جس کا مقصد غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔

پاکستان ان 8 عرب و مسلمان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اس منصوبے پر ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعاون کیا، اگرچہ وقفے وقفے سے جھڑپیں اور کشیدگی سامنے آتی رہی ہے، تاہم غزہ میں نازک نوعیت کی جنگ بندی اب تک قائم ہے۔

یہ جنگ بندی کئی پیچیدہ مسائل (مثلاً حماس کا غیر مسلح ہونا اور اسرائیلی انخلا کا ٹائم فریم) کو حل کیے بغیر طے پائی تھی، جس کی اسرائیل نے فضائی حملوں کی صورت میں بارہا خلاف ورزی کی۔

پیر کو ترکیہ، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، قطر، پاکستان، سعودی عرب اور اردن کے وزرائے خارجہ نے اسلامی و عرب وزرائے خارجہ کے رابطہ اجلاس میں استنبول میں ملاقات کی، تاکہ غزہ میں جنگ بندی کی صورتحال پر غور کیا جا سکے، یہ وہی ممالک ہیں جو 23 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر صدر ٹرمپ سے ملے تھے۔

دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار سمیت دیگر اسلامی و عرب سفارتکاروں نے پائیدار جنگ بندی اور غزہ میں دیرپا امن کے لیے آئندہ کے لائحہ عمل پر مشاورت کی۔

بیان میں کہا گیا کہ رہنماؤں نے فلسطینی عوام کے لیے فوری انسانی امداد کی فراہمی پر زور دیا، اسرائیلی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی، مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی انخلا کا مطالبہ کیا اور غزہ کی تعمیرِ نو کی ضرورت پر زور دیا۔

بیان کے آخر میں کہا گیا کہ پاکستان نے اپنے اصولی مؤقف کا اعادہ کیا کہ اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے عین مطابق فلسطین کی ایک آزاد، قابلِ عمل اور متصل ریاست کا قیام عمل میں آنا چاہیے، 1967 سے قبل کی سرحدوں کے مطابق جس دارالحکومت القدس الشریف ہو۔

پاکستان سمیت دیگر مسلمان ممالک نے کہا کہ غزہ کا مستقبل فلسطینیوں کی قیادت میں ہونا چاہیے اور وہاں کسی نئے سرپرستی یا بیرونی کنٹرول کے نظام سے گریز کیا جانا چاہیے۔

ترکیہ اس بات پر زور دے رہا ہے کہ مسلمان ممالک کو غزہ کی بحالی و تعمیر نو میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہیے۔

ترک وزیرِ خارجہ حاقان فیدان نے مذاکرات کے بعد کہا کہ ہمارا اصول یہ ہے کہ فلسطینیوں کو خود اپنے معاملات اور سیکیورٹی کا انتظام سنبھالنا چاہیے، اور عالمی برادری کو اس میں سفارتی، ادارہ جاتی اور معاشی طور پر بہترین ممکنہ مدد فراہم کرنی چاہیے۔

انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ وہاں نیا سرپرستی یا نگران کا نظام آئے، ہم ایک نہایت اہم اور نازک مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ غزہ میں نسل کشی دوبارہ شروع ہو۔

حاقان فیدان نے مزید بتایا کہ تمام 7 ممالک اس منصوبے کی حمایت کرتے ہیں جس کے تحت فلسطینی خود غزہ کی سیکیورٹی اور حکمرانی کا کنٹرول سنبھالیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ہفتے کے اختتام پر انہوں نے حماس کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیہ کی قیادت میں ایک وفد سے ملاقات کی تھی اور حماس نے اس موقع پر کہا تھا کہ وہ غزہ کا کنٹرول فلسطینیوں کی ایک مشترکہ کمیٹی کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے۔

ترک وزیرِ خارجہ نے امید ظاہر کی کہ حماس اور مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی کے درمیان مصالحتی کوششیں جلد کامیاب ہوں گی، کیونکہ بین الفلسطينی اتحاد سے فلسطین کی بین الاقوامی سطح پر نمائندگی مزید مضبوط ہوگی۔

حاقان فیدان نے کہا کہ بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف )، جو ٹرمپ کے منصوبے کے تحت غزہ میں جنگ بندی کی نگرانی کرے گی، کے لیے ضروری ہے کہ اس کا اختیار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے ذریعے طے کیا جائے تاکہ اسے قانونی جواز حاصل ہو۔

انہوں نے بتایا کہ واشنگٹن اس وقت عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس فورس کی تشکیل پر مشاورت کر رہا ہے، اور ترکیہ اس میں کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے، اگرچہ اسرائیل اس کی سخت مخالفت کر رہا ہے۔

حاقان فیدان کے مطابق جن ممالک سے ہماری بات ہوئی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی افواج بھیجنے کا فیصلہ اسرائیلی فوج کے مینڈیٹ اور اختیارات کی بنیاد پر کریں گے، پہلے ایک متفقہ مسودہ تیار کیا جائے گا، پھر اسے سلامتی کونسل کے اراکین کی منظوری درکار ہوگی اور یہ لازمی ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین میں سے کوئی بھی ویٹو استعمال نہ کرے۔

انہوں نے عندیہ دیا کہ یہ ویٹو اکثر امریکا استعمال کرتا ہے جو اسرائیل کا قریبی اتحادی ہے۔

اسرائیل طویل عرصے سے ترکیہ کے سفارتی اقدامات پر شک و شبہ رکھتا ہے، خصوصاً اس کے حماس سے قریبی روابط کی وجہ سے، اور اسی لیے وہ غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا کے بعد بننے والی فورس میں ترکیہ کی شمولیت کی شدید مخالفت کرتا ہے۔

Leave a Reply