حکومت نے گیس کی طلب میں کمی اور اضافی مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی دستیابی کے باعث گیس درآمد کے منصوبے مؤخر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، جب کہ متعلقہ وزارتوں کے درمیان اس حوالے سے مشترکہ حکمتِ عملی پر غور جاری ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اگرچہ آئندہ 15 برسوں میں پاکستان کی آبادی 32 کروڑ 50 لاکھ تک پہنچنے کی پیش گوئی کی گئی ہے اور مجموعی توانائی کی ضروریات میں اضافہ متوقع ہے، تاہم 2040 تک گیس کی طلب میں کمی اور 2031 کے بعد مائع قدرتی گیس کی فراوانی کے باعث ملک کو گیس درآمد کے منصوبے مؤخر کرنا پڑ سکتے ہیں۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ حکومت کی تمام متعلقہ وزارتوں کے درمیان ایک مشترکہ حکمتِ عملی زیرِ غور ہے، جس کے تحت ترکمانستان اور ایران سے پائپ لائن کے ذریعے گیس درآمد کے منصوبوں کو سست روی کا شکار کرنے اور ایل این جی سپلائی شیڈولز کو ازسرِنو ترتیب دینے کا امکان ہے، جب کہ پائیدار معاشی ترقی کے لیے ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر زور دیا جائے گا۔
یہ فیصلہ برطانیہ کی مشہور کنسلٹنسی فرم وڈ میکینزی کی ایک رپورٹ کے بعد کیا گیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو 2025 سے 2040 کے دوران ملک میں قدرتی گیس کی ضرورت تقریباً 3 فیصد کم ہو جائے گی، جب کہ گیس کی کل فراہمی، جس میں ایل این جی کے لازمی خریداری والے معاہدے بھی شامل ہیں 2030 کی دہائی کے آغاز تک بڑھتی رہے گی۔
مطالعے کے مطابق مجموعی گیس فراہمی بشمول ایل این جی معاہدوں کے، 2031 تک 50 لاکھ مکعب فٹ یومیہ تک پہنچنے کا تخمینہ ہے، جو اس وقت کے لگ بھگ 38 لاکھ مکعب فٹ یومیہ کے مقابلے میں 31 فیصد زیادہ ہے۔
دوسری جانب طلب میں 2031 تک 3.8 فیصد اور اس کے بعد کے 9 برسوں میں 2.5 فیصد کمی کی پیش گوئی کی گئی ہے، جس کی اوسط کمی 2040 تک 3 فیصد بنتی ہے، اس میں بجلی کے شعبے میں گیس کی ضرورت میں 12 فیصد کمی، جب کہ صنعتی و گھریلو شعبے میں بالترتیب 2.8 اور 4 فیصد اضافے کو شامل کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارکیٹ کے بنیادی مسائل کے حل اور زیادہ کھلے تجارتی ماحول کے لیے واضح حکمتِ عملی درکار ہے، کیونکہ قیمتوں میں بگاڑ، غیر مؤثر وسائل کی تقسیم اور مارکیٹ کے عدم توازن کے باعث گردشی قرضہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
اصلاحات کے ممکنہ شعبوں میں نئی تلاش و پیداوار میں سرمایہ کاری کی رکاوٹیں، گیس کے تمام ذرائع کی اوسط لاگت کا نیا نظام، بجلی کے شعبے میں گیس کے استعمال کے مسائل، گھریلو گیس فیلڈز میں جبری بندش، گیس کے نقصانات میں اضافہ، محدود ذخیرہ گاہیں اور شمسی توانائی کی بڑھتی ہوئی شمولیت شامل ہیں۔
تحقیق کے مطابق پاکستان کو اتنی زیادہ ایل این جی درآمد کی ضرورت نہیں جتنی پہلے سمجھی جاتی تھی، اس لیے حکومت کو ایل این جی درآمد کی حکمتِ عملی پر نظرثانی کرنی چاہیے تاکہ موجودہ معاہدوں کے حوالے سے بہتر فیصلے کیے جا سکیں۔
کم طلب اور زیادہ درآمدی معاہدوں نے ملک میں گیس کی تلاش و ترقی کی سرگرمیوں کو پہلے ہی متاثر کیا ہے، جس کے طویل مدتی منفی اثرات ہوں گے، کیونکہ درآمدی گیس کی قیمت مقامی پیداوار کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہے۔
دوسری جانب رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ دہائی میں امریکا اور قطر کی وجہ سے ایل این جی کی عالمی فراہمی میں بڑا اضافہ متوقع ہے، جس سے قیمتوں میں کمی آئے گی، تاہم پاکستان اس سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھا پائے گا۔
رپورٹ کے مطابق 2026 سے ایل این جی کی نئی فراہمی عالمی مارکیٹ میں قیمتوں پر دباؤ ڈالنا شروع کر دے گی، جب کہ مستقبل میں طویل مدت کی قیمتیں زیادہ تر امریکی ایل این جی کارگو کی لاگت کے مطابق طے ہوں گی۔
اسی دوران ایل این جی کی عالمی طلب 2025 سے 2040 کے دوران ہر سال تقریباً 3 فیصد کی شرح سے بڑھے گی، جو 40 کروڑ ٹن سالانہ سے بڑھ کر 67 کروڑ 50 لاکھ ٹن سالانہ تک پہنچنے کی توقع ہے، خاص طور پر ایشیا پیسفک خطے میں۔
اس وقت پاکستان میں کل توانائی کے استعمال میں 88 فیصد حصہ فوسل فیولز (تیل، گیس وغیرہ) کا ہے، جن میں گیس کا حصہ 42 فیصد اور تیل کا 29 فیصد ہے۔
2040 تک فوسل فیولز کا مجموعی حصہ کم ہو کر تقریباً 84 فیصد رہ جائے گا، گیس کا حصہ 30 فیصد اور تیل کا 34 فیصد ہو جائے گا، جس کی بنیادی وجہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بڑھتی ہوئی طلب ہوگی۔
توانائی کی مجموعی طلب 2030 تک 8 کروڑ 80 لاکھ ٹن تیل کے مساوی سے بڑھ کر 9 کروڑ 90 لاکھ ٹن سے زائد ہونے کی توقع ہے۔
رپورٹ کے مطابق بجلی کا شعبہ اب بھی سب سے بڑا چیلنج ہے، پاکستان میں گیس کی طلب میں کمی (خاص طور پر بجلی گھروں اور نجی پاور پلانٹس میں) اور مقامی گیس کی بڑھتی ہوئی دستیابی کے باعث یہ شعبہ ایک بڑی تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ بجلی کے شعبے سے گیس کی خریداری کے منصوبے پر مکمل ہم آہنگی اور عزم ناگزیر ہے، کیونکہ یہی طے کرے گا کہ مستقبل میں پاکستان کی مجموعی گیس طلب کس سمت جائے گی۔
ساتھ ہی انتباہ کیا گیا کہ اگر تلاش و پیداوار کے شعبے کے مسائل حل نہ کیے گئے تو متوقع فراہمی حاصل نہیں کی جا سکے گی، کیونکہ ایل این جی کی زیادتی نے مقامی گیس فیلڈز کو بند کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اگرچہ ملک نے مجموعی معاشی استحکام کی سمت میں کچھ پیش رفت کی ہے، لیکن پائیدار ترقی کے لیے مزید اصلاحات ضروری ہیں، کیونکہ 2040 تک پاکستان کی آبادی دو فیصد سالانہ شرح سے بڑھ کر 32 کروڑ 50 لاکھ تک پہنچنے کی توقع ہے، جو اسے دنیا کے پانچ سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں برقرار رکھے گی۔
2025 سے 2040 کے درمیان معیشت میں 3.7 فیصد سالانہ جی ڈی پی نمو کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اقتصادی سرگرمیاں بحال رہیں گی، درآمدی خام مال کی دستیابی، ملکی سپلائی چین میں بہتری اور کم افراطِ زر کے باعث معیشت کو سہارا ملے گا۔
تحقیق کے مطابق صنعتی پیداوار اگلے 15 برسوں میں اوسطاً چار فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھے گی۔
تاہم، رپورٹ نے خبردار کیا کہ اگرچہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی ایک ممکنہ معاشی فائدہ فراہم کرتی ہے، لیکن وسائل کی کمی، بنیادی ڈھانچے کی کمزوریوں اور روزگار کے مسائل کے باعث ملک اس فائدے سے مکمل طور پر مستفید نہیں ہو پا رہا۔
اس کے باوجود، آبادی میں اضافہ گھریلو سطح پر حرارت، کھانا پکانے، بجلی کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں اور ٹرانسپورٹ کے لیے توانائی کی مانگ میں اضافہ کرے گا۔
