استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تیسرے دور کے حتمی مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق مذاکرات کا آغاز استنبول کے مقامی ہوٹل میں ہوا ہے، دونوں ملکوں کے وفود مذاکرات کے لیے مقامی ہوٹل پہنچے ہیں، پاکستانی وفد مشیر قومی سلامتی اور ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کی سربراہی میں ہوٹل پہنچا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان وفد ملا عبدالحق واثق کی سربراہی میں مقامی ہوٹل پہنچا، مذاکرات ثالثوں کی موجودگی میں ہو رہے ہیں۔
پاکستانی وفد سینئر فوجی، انٹیلی جنس، اور بیوروکریسی کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔
قبل ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایک ثالث ملک کے سفارت کار نے ’ڈان‘ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دونوں فریق گزشتہ دور میں طے پانے والے وعدوں پر عملدرآمد کا جائزہ لیں گے اور گزشتہ ہفتے اصولی طور پر طے پانے والے نگرانی اور تصدیق کے طریقہ کار کو حتمی شکل دینے کی کوشش کریں گے۔
گزشتہ دور کے اختتام پر ترکیہ کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ’تمام فریقین نے جنگ بندی کے تسلسل‘ اور ’امن کے قیام کو یقینی بنانے اور خلاف ورزی کرنے والے فریق پر جرمانہ عائد کرنے کے لیے ایک نگرانی اور تصدیقی نظام کے قیام‘ پر اتفاق کیا ہے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ ’دونوں جانب کے اعلیٰ نمائندے‘ 6 نومبر کو استنبول میں دوبارہ ملاقات کریں گے تاکہ عملدرآمد پر بات چیت کی جا سکے۔
اگرچہ گزشتہ دور میں ایک عبوری معاہدہ طے پایا تھا، تاہم دونوں ممالک کے حکام نے آئندہ مذاکرات کے حوالے سے توقعات کو کم رکھا ہے۔
پاکستانی فوجی اور انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کا مؤقف بدستور واضح ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔
فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اس ہفتے کے آغاز میں کہا تھا کہ پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس سروس کا ایجنڈا ایک نکاتی ہے، دہشت گردی کا خاتمہ۔
ایک اور سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اسلام آباد ’ٹھوس اور قابلِ تصدیق ضمانتیں‘ چاہتا ہے۔
گزشتہ شب وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ وفد آج روانہ ہو گیا ہے اور مذاکرات کل صبح شروع ہوں گے، امید ہے کہ افغانستان دانشمندی سے کام لے گا اور خطے میں امن بحال ہوگا۔
