نائب وزیرعظم و وزیرخارجہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم جلد پارلیمان میں پیش کی جائے گی، پیپلز پارٹی سے ترمیم پر بات چیت کی ہے، اب دوسرے اتحادیوں سے بات چیت کریں گے۔
سینیٹ اجلاس میں اظہارخیال کرتے ہوئے سینیٹر اسحٰق ڈار نے کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم حکومت لارہی ہے اور اسے آئین و قانون کے مطابق پیش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم رولز کے مطابق متعلقہ قائمہ کمیٹیوں میں جائے گی اور میں علی ظفر کو یقین دلاتا ہوں کہ 27 ویں آئینی ترمیم پر باقاعدہ بحث ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت سے درخواست کروں گا کہ اس بار ترمیم کو پہلے سینیٹ میں لایا جائے۔
سینیٹر اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی سے ترمیم پر بات چیت کی ہے، اب دوسرے اتحادیوں سے بات چیت کریں گے ، سارا عمل شفاف طریقے سے کیا جائے گا۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم کو کمیٹی میں بھیجا جائے تاکہ اس پر بات چیت ہو، سینیٹ کی قانون و انصاف کمیٹی قومی اسمبلی کی قانون و انصاف کمیٹی کے ممبران کو بھی بلا لیں، دونوں کمیٹیوں کے ارکان بیٹھ کر ایک ہی جگہ پر 27 ویں آئینی ترمیم پر بحث کرلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو کی ٹوئٹ میں نے دیکھی ہے، انہوں نے جن باتوں کا تذکرہ کیا ہے ان پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔
سینیٹر اسحٰق ڈار نے نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ لیڈر آف دی اپوزیشن کی تعیناتی بالکل ہونی چاہیے، لیڈر آف اپوزیشن کی ذمہ داری چیئرمین سینیٹ کی ہے، حکومت تو اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال رہی، چیئرمین سینیٹ اس معاملے کو دیکھ کر رولز کے مطابق جلد تعینات کریں۔
سینیٹر اسحٰق ڈار نے کہا کہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا، افغانستان سے با رہا کہا کہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خودکش دھماکے عروج پر پہنچ گئے تھے، دس سال پہلے بہت زیادہ دہشتگردی تھی، اس وقت بھی سول ملٹری قیادت نے مل کر بیٹھیں پھر ضرب عضب شروع کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے اندر آنے والوں کو نکالنے کے لیے رد فساد شروع کیا گیا، تمام آپریشنز سے دہشتگردی بہت کم ہو گئی تھی، مگر کیا غلط ہوا ہمیں دیکھنا چاہیے تاکہ دوبارہ غلطی نہ کریں۔
سینیٹر اسحٰق ڈار نے کہا کہ چار سال افغانستان سے کوئی تجارت نہیں تھی، پچھلے سال وزیر خارجہ بننے کے بعد افغانستان کا دورہ کیا اور تمام معاملات پر بات کی، ان سے ایک ہی مطالبہ کیا کہ اپنے ملک کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔
اسحٰق ڈار نے مزید کہا کہ ان کے وزیر خارجہ کے ساتھ پریس کانفرنس کی اور تمام باتیں اس میں کیں، واپس آکر دو ماہ میں مکمل چیزوں پر عملدرآمد کروایا۔
سینیٹر اسحٰق ڈار نے کہا کہ کل ملا متقی کی چھ کالز آئی ہیں، میں نے کہا ہم نے آپ سے صرف ایک چیز چاہیے کہ آپ کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان نے 2 ہزار میٹرک ٹن امداد غزہ بھیجی جبکہ امریکی صدر ٹرمپ نے غزہ امن منصوبے کے حوالے سے 8 ملک کے ساتھ مشاورت کی مگر اسرائیل امن معاہدے کی خلاف ورزی کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام نے ہمیشہ قومی ایشوز میں اپنا حصہ ڈالا ہے، مداس میں اگر اصلاحات لائی جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مدرسوں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں بنیادی طور پر مفاہمت اور بات چیت پر یقین رکھتا ہوں، جس ادارے کے جوانوں کے جنازے اٹھائے جاتے ہیں ان میں غصہ پایا جاتا ہے، فیلڈ مارشل عاصم منیر کی آنکھوں میں آنسو دیکھ رہا ہوتا ہوں۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ آپ ایک رات میں بہت کچھ کرسکتے ہیں، جو بھارت کے ساتھ ہوا سب نے دیکھ لیا ہے، ہمیں معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنگ کے دوران بھارت بار بار جھوٹ بول کر ایکسپوز ہوا ہے، فضائی جنگ کے ساتھ ساتھ بھارت کو زمینی طور پر بھی بھرپور جواب دیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ دعویٰ کیے جانے کے بعد کہ حکومت نے مجوزہ آئینی ترامیم کے لیے اس کی حمایت مانگی ہے، 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے قیاس آرائیوں اور بحث میں شدت آگئی۔
مجوزہ آئینی ترامیم نے ملک بھر میں بحث چھیڑ دی ہے، کیونکہ مختلف سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مؤقف طے کر رہی ہیں، جبکہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس اقدام سے 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو دیے گئے کچھ اختیارات واپس لیے جا سکتے ہیں۔
حزبِ اختلاف کی جماعت تحریکِ انصاف نے اعلان کیا ہے کہ وہ مجوزہ ترمیم کی ’ڈٹ کر‘ مخالفت کرے گی۔
خیال رہے کہ حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی ترمیم کی منظوری کے لیے واضح دو تہائی اکثریت حاصل ہے، 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری پاکستان پیپلزپارٹی ( پی پی پی) کی حمایت کے بغیر ناممکن ہے، ترمیم کے لیے حکومت کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کی حمایت کی لازمی درکار نہیں ہے۔
حکومت کو قومی اسمبلی میں 237 ارکان کی حمایت حاصل ہے، جب کہ حکومت کو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 224 ووٹ درکار ہیں، قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 125، پیپلزپارٹی کے 74 ارکان، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم-پی) کے 22، پاکستان مسلم لیگ 5 ، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے 4 ارکان اتحاد کا حصہ ہیں۔
مسلم لیگ ضیا، نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) بھی حکومت کے ساتھ ہے، 4 آزاد ارکان بھی قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔
دوسری جانب، اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے 89 ارکان موجود ہیں، قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے آزاد اراکین کی تعداد 76 ہے، جے یو آئی (ف) کے 10 ارکان، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)، مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کا ایک، ایک رکن ہے۔
سینیٹ میں 2 تہائی اکثریت کے لیے حکومت کو عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) جمعیت علمائے اسلام (ف) ، آزاد اراکین کی حمایت پر انحصار کرنا ہوگا، سینیٹ میں حکمران اتحاد کے اراکین کی تعداد 61، اپوزیشن اراکین کی تعداد 35 ہے۔
سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے لیے 64 اراکین کی ضرورت ہے۔
حکمران اتحاد میں پیپلزپارٹی کے 26، مسلم لیگ (ن) کے 20، باپ کے 4، ایم کیو ایم 3، (ق) لیگ اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک سینیٹر ہے۔
سینیٹ میں حکومتی حمایت یافتہ آزاد اراکین کی تعداد 6 ہے۔
حکومت کو سینیٹ میں 27 ویں ترمیم کی منظوری کے لیے جے یو آئی (ف) یا اے این پی کے 3 اراکین کی حمایت لازمی درکار ہوگی۔
