افغانستان کے شمالی شہر مزارِ شریف کے قریب پیر کی صبح 6.3 شدت کا زلزلہ آیا ہے، صوبائی حکام کے مطابق زلزلے کے نتیجے میں کم از کم 7 افراد جاں بحق اور تقریباً 150 زخمی ہوگئے۔
امریکی جیولوجیکل سروے (یو ایس جی ایس) کے مطابق زلزلے کا مرکز مزارِ شریف کے قریب 28 کلومیٹر زیر زمین تھا، مزارِ شریف کی آبادی تقریباً 5 لاکھ 23 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔
صوبہ سمنگان کے محکمہ صحت کے ترجمان سمیم جویندہ نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ ’اب تک 150 زخمیوں اور 7 اموات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جنہیں صحت کے مراکز منتقل کیا جا چکا ہے‘، انہوں نے کہا کہ ’یہ اعداد و شمار پیر کی صبح تک ہسپتالوں سے موصول رپورٹس پر مبنی ہیں‘۔
امریکی جیولوجیکل سروے کے پیجر نظام نے اس زلزلے کے لیے نارنجی الرٹ جاری کیا، جو ایک خودکار نظام ہے اور زلزلے کے اثرات سے متعلق ابتدائی اندازے فراہم کرتا ہے، الرٹ میں کہا گیا کہ ’نمایاں جانی نقصان کا خدشہ ہے اور یہ آفت ممکنہ طور پر وسیع پیمانے پر پھیل سکتی ہے‘۔
ایسے الرٹس والے ماضی کے زلزلے عام طور پر علاقائی یا قومی سطح کے ہنگامی ردعمل کا تقاضا کرتے رہے ہیں۔
صوبہ بلخ کے ترجمان حاجی زید نے بتایا کہ زلزلے سے مزارِ شریف کے مقدس مقبرے کا ایک حصہ منہدم ہوگیا۔
ملکی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی نے کہا کہ نقصانات اور ہلاکتوں کی تفصیلات بعد میں جاری کی جائیں گی، رائٹرز آزادانہ طور پر نقصان کی حد کی تصدیق نہیں کر سکا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کی کوششوں اور عمارتوں کے ٹوٹے ہوئے حصوں کی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کی گئیں، ایک ویڈیو میں امدادی کارکنوں کو ملبے سے لاشیں نکالتے دیکھا جا سکتا ہے، تاہم ’رائٹرز‘ ان ویڈیوز اور تصاویر کی تصدیق نہیں کر سکا۔
یاد رہے کہ رواں سال اگست میں آنے والے زلزلوں اور جھٹکوں کے ایک سلسلے کے نتیجے میں طالبان انتظامیہ کے مطابق ہزاروں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
افغانستان زلزلوں کے لیے خاص طور پر حساس ملک ہے کیونکہ یہ دو بڑی فعال فالٹ لائنز پر واقع ہے، جو کسی بھی وقت ٹوٹ کر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتی ہیں۔
2015 میں شمال مشرقی افغانستان میں آنے والے زلزلے نے افغانستان اور پاکستان میں سیکڑوں افراد کی جان لی تھی، جبکہ 2023 میں ایک اور زلزلے میں کم از کم ایک ہزار افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
