پاک-افغان جنگ بندی معاہدہ سرحدی دراندازی نہ ہونے سے مشروط ہے، خواجہ آصف

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ اس بات سے مشروط ہے کہ افغان طالبان پاکستان پر اپنی سرزمین سے حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو قابو میں رکھیں۔

واضح رہے کہ دونوں ممالک نے دوحہ میں ہفتے کے آخر میں جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا، یہ فیصلہ کئی دنوں تک جاری سرحدی جھڑپوں کے بعد کیا گیا تھا، یہ 2021 میں کابل میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ہونے والا بدترین تصادم تھا۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2600 کلومیٹر طویل متنازع سرحد پر زمینی لڑائی اور پاکستانی فضائی حملے اس وقت شروع ہوئے تھے، جب اسلام آباد نے کابل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ دہشت گردوں پر قابو پائے جو مبینہ طور پر افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے حملے کرتے ہیں۔

خواجہ آصف نے اپنے پارلیمنٹ میں دفتر میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’افغانستان کی طرف سے ہونے والا کوئی بھی حملہ اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی، ہر چیز اسی ایک شق پر منحصر ہے۔‘

طالبان انتظامیہ اور افغانستان کی وزارت دفاع نے اس معاملے پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ’ پاکستان، افغانستان، ترکیہ اور قطر کی جانب سے دستخط کردہ معاہدے میں یہ بات واضح طور پر لکھی گئی ہے کہ کوئی سرحدی دراندازی نہیں ہوگی۔’

انہوں نے کہا کہ ’جب تک اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، جنگ بندی نافذ العمل رہے گی۔‘

وزیر دفاع نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان سے طالبان کی ’ملی بھگت‘ سے پاکستان پر حملے کرتی رہی ہے، تاہم کابل پہلے ہی ان الزامات کی تردید کر چکا ہے۔

الجزیرہ عربی کو دیے گئے ایک علیحدہ انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ جنگ بندی کے معاہدے کا بنیادی مقصد ’ دہشت گردی کے خطرے کا خاتمہ’ ہے۔

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ دہشت گردی کئی برسوں سے پاک-افغان سرحدی علاقوں کو متاثر کر رہی ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ دونوں ممالک اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ دہشت گردی کا فوری خاتمہ ضروری ہے، دونوں فریقین سنجیدگی سے انسداد دہشت گردی کی کوششیں کریں گے، ورنہ علاقائی امن کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ بنیادی طور پر قطر اور ترکیہ کی ثالثی سے طے پایا، اور دونوں ممالک کی موجودگی اس معاہدے کی ضمانت ہے۔

وزیرِ دفاع نے قطری امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے کردار کو بھی سراہا جنہوں نے اس معاہدے میں سہولت فراہم کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ ہفتے استنبول میں ایک اور اجلاس منعقد ہوگا تاکہ معاہدے کی تفصیلات کو حتمی شکل دی جا سکے، اور دونوں ممالک کے درمیان موجودہ مسائل کے حل کے لیے ایک مؤثر نظام وضع کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے افغان ہم منصب نے بھی تسلیم کیا کہ دہشت گردی ہی دو طرفہ تعلقات میں تناؤ کی اصل وجہ ہے، جسے اب حل کیا جائے گا۔

وزیر دفاع نے کہا کہ گزشتہ برسوں میں پاکستان کو دہشت گردی کے باعث بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے، تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ اب امن بحال ہوگا اور پاکستان و افغانستان کے تعلقات معمول پر آ جائیں گے۔

خواجہ آصف کے مطابق اس کے نتیجے میں پاک-افغان تجارت اور ٹرانزٹ سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوں گی، جس سے افغانستان دوبارہ پاکستانی بندرگاہوں کو استعمال کر سکے گا۔

خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ ایسے افغان پناہ گزین جو درست ویزا اور دستاویزات رکھتے ہیں، انہیں پاکستان میں رہنے کی اجازت ہوگی، تاہم غیر قانونی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری رہے گا۔

وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ تمام خدشات دور ہو گئے ہیں، ’آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں دیکھنا ہوگا کہ معاہدے پر عمل درآمد کس حد تک مؤثر رہتا ہے۔‘

عرب نیوز کو دیے گئے ایک علیحدہ انٹرویو میں انہوں نے اس خیال کو رد کیا کہ پاکستان نے کابل پر فضائی حملے امریکا کے کہنے پر کیے، انہوں نے کہا کہ ’یہ بالکل فضول بات ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں۔‘

انہوں نے سوال اٹھایا کہ پاکستان ایسا کیوں کرے گا، جب کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان میں مداخلت سے وہ پہلے ہی تنگ آ چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ’ ہم دور رہنا چاہتے ہیں اور ایک شریف ہمسائے کی طرح رہنا چاہتے ہیں، ہم افغان معاملات میں مداخلت نہیں چاہتے۔’

وزیردفاع نے مزید کہا کہ پاکستان کا ’ افغانستان کے بھارت یا کسی اور ملک کے ساتھ تعلقات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔’

خواجہ آصف نے واضح الفاظ میں کہا کہ ’بالکل نہیں، جو کچھ وہ اپنی سرزمین پر کرنا چاہتے ہیں، جب تک وہ ہمارے ملک میں اثر انداز نہیں ہوتا، ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔‘

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے بعد ازاں جیو نیوز کے پروگرام ’ آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ’ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کسی تلخ ماحول میں نہیں ہوئے اور اس کا سہرا قطری اور ترک حکام کو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’کسی بھی متنازع نکتے پر محاذ آرائی کا کوئی موقع فراہم نہیں کیا گیا،‘ مزید کہا کہ تمام ترامیم، اضافے یا اخراج سے متعلق بات چیت قطری اور ترک حکام کے ذریعے ہوئی۔

خواجہ آصف نے بتایا کہ ’براہِ راست رابطہ صرف افتتاحی سیشن میں ہوا، جہاں دونوں فریقین نے بات کی … باقی تمام گفت و شنید قطر اور ترکیہ کے ذریعے ہوئی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ معاہدے کا مسودہ صرف ایک صفحے پر مشتمل تھا، برخلاف اس طویل ورژن کے جو سوشل میڈیا پر گردش کر رہا تھا، انہوں نے کہا کہ ترکیہ میں ہونے والے آئندہ اجلاس میں تفصیلات کو مزید بہتر بنایا جائے گا، جیسے معاہدے کے نفاذ کے طریقہ کار کو حتمی شکل دینا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ جنگ بندی برقرار رہے گی، تو وزیرِ دفاع نے کہا کہ ’میں اس معاملے پر محتاط امید رکھتا ہوں، مجھے امید ہے لیکن ساتھ ساتھ میں محتاط بھی ہوں، حتمی طور پر کچھ کہنا حالات کے شواہد پر منحصر ہے، ابھی کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن یقیناً ہمیں پُرامید رہنا چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ افغان طالبان ایک ’متحدہ حکومت‘ کے طور پر عمل کریں گے اور پاکستان کے ساتھ معاملہ طے کریں گے، بجائے اس کے کہ کل یہ کہہ دیں کہ مختلف گروہ اس کشیدگی کے پیچھے تھے۔

وزیرِ دفاع نے وضاحت کی کہ اگر کسی قسم کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو قطر اور ترکیہ کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کہا جائے گا، انہوں نے مزید کہا کہ اس پورے عمل کا طریقہ کار 25 اکتوبر کے اجلاس میں طے کیا جائے گا۔

خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی پوری قیادت افغانستان میں موجود ہے، اور یہ معاملہ استنبول میں ہونے والے اجلاس میں بھی اٹھایا جائے گا، انہوں نے واضح کیا کہ ان مذاکرات کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے ساتھ براہِ راست بات چیت کرے گا۔

جب ان سے قطر کی پریس ریلیز میں تبدیلی کے بارے میں پوچھا گیا (جس میں ’ سرحد پر کشیدگی’ سے متعلق جملہ بعد میں ہٹایا گیا) تو خواجہ آصف نے اعتراف کیا کہ اس لفظ کے استعمال پر بحث ضرور ہوئی تھی، لیکن بالآخر قطر کی پریس ریلیز کا معاہدے کے مسودے سے کوئی تعلق نہیں تھا، انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس کے مواد کی تفصیل ظاہر نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ’ یہ ان کے درمیان کا معاملہ ہے، اس کا معاہدے پر بالکل کوئی اثر نہیں پڑتا،’
مزید کہا کہ اس واقعے کو جس طرح دیگر لوگ نتائج اخذ کر رہے ہیں، اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔

Leave a Reply