پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو پنجاب میں ہونے والے آئندہ بلدیاتی انتخابات سے مکمل طور پر باہر ہونے کا خدشہ لاحق ہے، کیوں کہ پارٹی کے پاس تاحال کوئی باضابطہ انتخابی نشان موجود نہیں ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار ممکنہ طور پر انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے، کیوں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے ابھی تک پارٹی کو انتخابی نشان الاٹ نہیں کیا، جو کہ نئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت حصہ لینے کے لیے ایک لازمی شرط ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ حال ہی میں منظور کیے گئے قانون کے مطابق کوئی بھی امیدوار جو آزاد حیثیت میں بطور کونسلر منتخب ہو گا، اسے عہدہ سنبھالنے کے 30 دن کے اندر کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونا لازمی ہے۔
تاہم پی ٹی آئی کی باقاعدہ رجسٹریشن اور انتخابی نشان موجود نہیں، اس لیے پارٹی کے حامی آزاد امیدوار نہ تو خود کو پی ٹی آئی سے وابستہ کر سکیں گے اور نہ ہی اگر وہ پارٹی پالیسی کے خلاف جائیں تو ان کے خلاف تادیبی کارروائی ممکن ہو گی۔
پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی انتخابات کا تنازع گزشتہ 19 ماہ سے ای سی پی میں زیرِ التوا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے وکلا نے اس معاملے کو حل کرنے میں کوئی خاص سنجیدگی نہیں دکھائی، جس کے باعث تاخیر میں اضافہ ہوا، ای سی پی نے بھی لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کردہ حکمِ امتناع کے بعد کارروائی معطل کر رکھی ہے، جس سے کیس مزید تعطل کا شکار ہو گیا ہے۔
دوسری جانب، پنجاب کے گورنر سردار سلیم حیدر خان نے کہا ہے کہ نیا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 تاحال ان کے دستخط کا منتظر ہے۔
ایک استقبالیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر پنجاب نے کہا کہ وہ قانون پر فیصلہ تفصیلی بریفنگ کے بعد کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے ابھی اس نئے قانون کو پوری طرح نہیں سمجھا،” انہوں نے کہا۔ “لوکل گورنمنٹ کے سیکریٹری پیر (کل) کو مجھے بریفنگ دیں گے، جس کے بعد میں حتمی فیصلہ کروں گا۔
پنجاب اسمبلی نے گزشتہ پیر کو نیا بلدیاتی حکومت کا بل منظور کیا تھا، جب کہ ای سی پی نے پی ایل جی اے 2022 کے تحت دسمبر میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے حلقہ بندیوں کا عمل شروع کر دیا ہے اور پنجاب حکومت کی تاخیر کی تمام وجوہات کو مسترد کر دیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ قانونی ابہامات کے برقرار رہنے اور گورنر کی منظوری کے منتظر نئے بلدیاتی فریم ورک کے باعث پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کا شیڈول اور ان کی سیاسی نوعیت تاحال غیر یقینی ہے، جب کہ پی ٹی آئی کی شمولیت ایک بڑے سوالیہ نشان کے طور پر موجود ہے۔
