چین اور امریکا نے اتفاق کیا ہے کہ وہ آئندہ ہفتے تجارتی مذاکرات کا ایک اور دور منعقد کریں گے، دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتیں ایک اور نقصان دہ محصولات کی جنگ (ٹِٹ فار ٹیٹ ٹیرف جنگ) سے بچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق گزشتہ ہفتے بیجنگ نے نایاب معدنیات کی اہم صنعت پر وسیع پیمانے پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے جواب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے درآمدات پر 100 فیصد محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی تھی۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس ماہ جنوبی کوریا میں ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (اے پی ای سی) سمٹ کے موقع پر اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے متوقع ملاقات منسوخ کر سکتے ہیں۔
تاہم، تازہ پیش رفت میں تنازع کے حل کی کوششوں کے اشارے ملے ہیں۔
چینی سرکاری میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ نائب وزیرِ اعظم ہی لی فینگ اور امریکی وزیرِ خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کے درمیان ہفتے کی صبح ’کھلے، گہرے اور تعمیری مذاکرات‘ ہوئے اور دونوں فریقین نے جلد از جلد ایک نئے دور کے تجارتی مذاکرات پر اتفاق کرلیا۔
سوشل میڈیا پر بیسنٹ نے گفتگو کو ’واضح اور تفصیلی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اگلے ہفتے بالمشافہ ملاقات کریں گے تاکہ مذاکرات جاری رکھے جا سکیں۔
بیسنٹ اس سے قبل چین پر یہ الزام لگا چکے ہیں کہ وہ نایاب معدنیات پر پابندیاں سخت کر کے دنیا کے دیگر ممالک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے، یہ معدنیات اسمارٹ فونز سے لے کر گائیڈڈ میزائل تک متعدد جدید مصنوعات میں استعمال ہوتی ہیں۔
چینی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’شِنہوا‘ کے مطابق امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریئر نے بھی اس کال میں شرکت کی۔
کال سے چند گھنٹے قبل، ’فاکس نیوز‘ نے ٹرمپ کے ایک انٹرویو کے اقتباسات نشر کیے، جن میں انہوں نے تصدیق کی کہ وہ اب بھی ’اے پی ای سی‘ اجلاس میں شی جن پنگ سے ملاقات کریں گے۔
ٹرمپ نے اس موقع پر کہا کہ چین سے درآمد شدہ سامان پر 100 فیصد ٹیرف قابلِ برداشت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ پائیدار نہیں، لیکن یہی وہ شرح ہے، انہوں نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا‘۔
یہ اعلیٰ سطح کی ویڈیو کال اس وقت ہوئی ہے، جب واشنگٹن نے چین کی تازہ برآمدی پابندیوں کے جواب میں گروپ آف سیون (جی سیون) کے مالیاتی وزرا کو ہم آہنگ کرنے کی کوششیں تیز کر دی تھیں۔
فی الحال، یورپی یونین کے اقتصادی کمشنر والدیس ڈومبرووسکس کے مطابق جی 7 ممالک نے قلیل المدتی ردِعمل کے لیے اتفاق کیا ہے اور سپلائرز کو متنوع بنانے پر زور دیا ہے۔
انہوں نے واشنگٹن میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک کے موسم خزاں کے اجلاسوں کے موقع پر کہا کہ نایاب معدنیات کی اکثریتی فراہمی چین سے آتی ہے، اس لیے سپلائی میں تنوع پیدا کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکا کے ساتھ دوطرفہ طور پر اور جی 7 سطح پر اپنے طریقہ کار کو ہم آہنگ کرنے پر اتفاق کیا ہے، ممالک اپنے چینی ہم منصبوں سے رابطوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ بھی کریں گے تاکہ قلیل مدتی حل تلاش کیے جا سکیں۔
جرمن وزیرِ خزانہ لارس کلنگ بائل نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں امید ہے کہ ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات سے امریکا اور چین کے درمیان تجارتی تنازع کے بیشتر مسائل حل ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے جی 7 میں واضح کر دیا ہے کہ ہم چین کے طرزِ عمل سے اتفاق نہیں کرتے۔
جی سیون میں برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور امریکا شامل ہیں۔
آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا نے بھی جمعہ کے روز دونوں ممالک کے درمیان کسی معاہدے کی امید ظاہر کی تھی، تاکہ کشیدگی کم ہو سکے۔
امریکا اور چین کے درمیان تجارتی جنگ اس سال دوبارہ بھڑک اٹھی تھی، جب ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد درآمدات پر وسیع پیمانے پر محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ایک موقع پر دونوں ممالک کے درمیان ٹیرف کی شرح 3 ہندسوں تک پہنچ گئی تھی، جس کے نتیجے میں کچھ تجارتی سرگرمیاں مکمل طور پر رک گئی تھیں کیونکہ کاروبار کسی حل کے منتظر تھے۔
بعد ازاں دونوں ممالک نے اپنے اپنے محصولات کم کیے، لیکن تجارتی جنگ بندی اب بھی غیر مستحکم ہے۔

 
                     
                    