وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ افغان سر زمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا تشویشناک ہے۔
وزیراعظم شہباز کی زیر صدارت افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی پر اعلی سطح اجلاس ہوا، جس میں فیلڈ مارشل عاصم منیر، وفاقی وزرا، وزیراعظم آزاد کشمیر، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلی موجود تھے جب کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلی کے نمائندے اور وفاقی و صوبائی اعلی حکام نے شرکت کی۔
اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نےکہا کہ افغانستان سے پاکستان میں خوارج کی در اندازی روکنے کی سفارتی و سیاسی اقدامات کے ذریعے بھرپور کوشش کی گئی، دہائیوں سے مشکلات میں گھرے افغانستان کی پاکستان نے ہر مشکل وقت میں مدد کی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں ہزاروں قیمتی جانوں اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان اٹھایا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار، وزیردفاع خواجہ آصف، اعلی حکومتی عہدیدار، متعدد بار افغانستان کے دورے پر گئے، افغان نگران حکومت کو پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں افغان سر زمین کے استعمال کو روکنے کے لیے مذاکرات کیے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان سے پاکستان میں خوارج کی در اندازی روکنے کی سفارتی و سیاسی اقدامات کے ذریعے بھرپور کوشش کی، پاکستان کے بہادر عوام، جنہوں نے دہشتگردی کی جنگ میں اپنے پیاروں کی قربانیاں دیں، ہم سوال کرتے ہیں کہ حکومت کب تک افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھائے گی؟
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ہدایت کی کہ تمام صوبائی حکومتیں، وفاقی و صوبائی ادارے قریبی تعاون کے ساتھ پاکستان میں غیر قانونی طور پر موجود افغان باشندوں کی جلد از جلد وطن واپسی کو یقینی بنائیں گے۔
انہوں نے افغان حملوں کے بعد جوابی کارروائیوں میں مسلح افواج کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اس حملے کا بھرپور انداز سے جواب دیا، فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں افواج پاکستان نے افغانستان کے حملوں کو پسپا کیا، جس پر مجھ سمیت پوری قوم انہیں خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں افواج پاکستان بھارتی جارحیت کے دوران بھی یہ ثابت کر چکیں کہ ہماری بہادر افواج اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے ارضِ وطن کا دفاع کرنا جانتی ہیں۔
اس دوران اعلیٰ سطح اجلاس کو افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ بھی دی گئی۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی مرحلہ وار وطن واپسی شروع کی گئی ہے، 16 اکتوبر 2025 تک 14 لاکھ 77 ہزار 592 افغان باشندوں کو واپس بھیجا جا چکا، افغان مہاجرین کو کسی بھی قسم کی اضافی مہلت نہیں دی جائے گی اور انکی وطن واپسی جلد یقینی بنائی جائے گی۔
پاکستان میں صرف انہی افغانی باشندوں کو رہنے کی اجازت حاصل ہوگی جن کے پاس پاکستان کا ویزہ موجود ہوگا، اجلاس کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ افغانستان کی جانب ایگزٹ پوائنٹس کی تعداد کو بڑھایا جا رہا ہے تاکہ افغان شہریوں کی وطن واپسی سہل اور تیزی سے ممکن ہو سکے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر موجود افغان باشندوں کو پناہ دینا اور انہیں گیسٹ ہاؤسز میں قیام کی اجازت دینا قانوناً جرم ہے، ایسےافغانی باشندوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔
پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے عمل میں عوام کو شراکت دار بنایا جائےگا اور کسی کو بھی افغان باشندوں کو حکومت کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں پناہ دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
وزیرِ اعظم نے غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے دوران بزرگوں، خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے ساتھ باعزت طریقے سے پیش آنے کی ہدایت بھی کی۔
وزیرِ اعظم آزاد جموں و کشمیر، پنجاب، سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان کے وزرائے اعلی اور خیبر پختونخوا حکومت کے نمائندے نے پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کو سراہا، وزیرِ اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے اس حوالے سے مرکزی کردار کی بھی تعریف کی۔
اجلاس کے اختتام پر فورم نے فیصلہ کیا کہ اجلاس میں پیش کردہ تمام سفارشات پر سختی سے عمل کیا جائے، وزیرِ اعظم نے افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے حوالے سے صوبوں کو مکمل تعاون کی درخواست کی۔
شہباز شریف نے گزشتہ روز وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کے ساتھ ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کے حوالے سے بتایا کہ میں نے وزیراعلی کو عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی اور وفاق کی جانب سے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا وفاق کی ایک اہم اکائی ہے، وفاق خیرپختونخوا کے عوام کی فلاح و ترقی کے لیے صوبائی حکومت کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان آج قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات ہوں گے، افغان وفد کی قیادت وزیر دفاع ملا یعقوب کریں گے جبکہ پاکستان کی جانب سے سینئر سیکیورٹی حکام شرکت کریں گے۔
یاد رہے کہ 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب افغان طالبان نے پاکستان پر بلااشتعال فائرنگ کر دی تھی۔
طالبان سرحدی فورسز کے مطابق پاکستانی فضائی حملوں کے ردعمل میں افغان سرحدی فورسز مشرقی علاقوں میں بھاری لڑائی میں مصروف رہیں۔
کنڑ، ننگرہار، پکتیکا، خوست اور ہلمند کے طالبان حکام نے بھی جھڑپوں کی تصدیق کی تھی، اسلام آباد نے کابل پر زور دیا تھا کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کو اپنی سرزمین پر پناہ دینے سے باز رہے۔
سیکیورٹی ذرائع نے بتایا تھا کہ پاک فوج کی جوابی کارروائی میں درجنوں افغان فوجی مارے گئے اور عسکری گروہ مؤثر اور شدید جوابی کارروائی کے باعث پسپا ہو گئے تھے۔
