دوحہ: وزیر دفاع خواجہ آصف کی قیادت میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا پہلا دور مکمل

پاکستان اور طالبان وفود کے درمیان دوحہ میں مذاکرات کا پہلا دور مکمل ہو گیا، فریقین نے 5 گھنٹے سے زائد وقت تک مذاکرات کیے۔

ڈان نیوز کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی وفد کی قیادت وزیر دفاع خواجہ آصف نے کی، جبکہ مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک بھی وفد میں شامل ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ افغان وفد کی سربراہی عبوری وزیر دفاع ملا یعقوب نے کی، افغان وفد میں طالبان کے انٹیلی جنس چیف مولوی عبدالحق بھی شریک ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک نے اپنے خدشات و شکایات سامنے رکھیں، پاکستان نے مؤقف اپنایا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، گل بہادر گروپ افغانستان سے کارروائیاں کرتے ہیں، جنگجوؤں کے افغانستان سے آنے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

مزید مؤقف اپنایا گیا کہ پاکستانی شہریوں کو افغانستان سے بھتے کی کالز آتی ہیں، جس پر افغانستان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی شکایت پر ان عناصر کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ پاکستان اور افغان طالبان کے مذاکرات کا دوسرا دور کل پھر قطر میں ہوگا

ذرائع کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات قطر کے انٹیلی جنس چیف کی میزبانی میں کیے جارہے ہیں، جس میں پاکستان، دراندازی کے یک نکاتی ایجنڈے پر بات کررہا ہے۔

قبل ازیں، ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا تھا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی قیادت میں اعلیٰ سطح کا وفد آج دوحہ میں افغان طالبان کے نمائندوں سے مذاکرات کرے گا جس کا مقصد سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات پر بات چیت کرنا ہے۔

دفتر خارجہ کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کرے گا۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی سربراہی میں ہونے والے ان مذاکرات کا مقصد افغانستان سے پاکستان کے خلاف ہونے والی سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات پر بات چیت کرنا اور پاک-افغان سرحد پر امن و استحکام کی بحالی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کسی قسم کی کشیدگی نہیں چاہتا، تاہم وہ افغان طالبان حکام پر زور دیتا ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کریں۔

ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ افغان طالبان پاکستان کے جائز سیکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے تصدیق شدہ کارروائی کریں، خاص طور پر فتنۃ الخوارج یعنی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور فتنۃ الہندوستان یعنی کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے خلاف کارروائیاں کریں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان قطر کی ثالثی کی کوششوں کو سراہتا ہے اور امید ظاہر کرتا ہے کہ یہ مذاکرات خطے میں امن اور استحکام کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

دوسری جانب، افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ’ایکس‘ پر جاری بیان میں کہا کہ وزیرِ دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد کی قیادت میں افغان حکومت کا ایک وفد پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے قطر روانہ ہو گیا ہے۔

واضح رہے کہ 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب افغان طالبان نے پاکستان پر بلااشتعال فائرنگ کر دی تھی۔

طالبان سرحدی فورسز کے مطابق پاکستانی فضائی حملوں کے ردعمل میں افغان سرحدی فورسز مشرقی علاقوں میں بھاری لڑائی میں مصروف رہیں۔

کنڑ، ننگرہار، پکتیکا، خوست اور ہلمند کے طالبان حکام نے بھی جھڑپوں کی تصدیق کی۔

اسلام آباد نے کابل پر زور دیا تھا کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کو اپنی سرزمین پر پناہ دینے سے باز رہے۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق پاک فوج کی جوابی کارروائی میں درجنوں افغان فوجی مارے گئے اور عسکری گروہ مؤثر اور شدید جوابی کارروائی کے باعث پسپا ہو گئے تھے۔

14 اکتوبر کو پاک-افغان سرحد میں کرم کے مقام پر ایک بار پھر افغان طالبان کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کی گئی تھی، پاک فوج نے بروقت جوابی کارروائی کی تھی، جس کے نتیجے میں طالبان پوسٹوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔

15 اکتوبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا تھا کہ 15 اکتوبر 2025 کو علی الصبح افغان طالبان نے بلوچستان کے علاقے اسپن بولدک میں 4 مختلف مقامات پر بزدلانہ حملے کیے تھے، جنہیں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے بھرپور اور مؤثر انداز میں ناکام بنا دیا تھا، اس دوران 15 سے 20 افغان طالبان ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔

15 اکتوبر کو ہی پاکستان نے افغانستان کے صوبہ قندھار اور دارالحکومت کابل میں افغان طالبان اور خوارج کے ٹھکانوں پر بمباری کی تھی، تمام اہداف باریک بینی سے منتخب کیے گئے جو شہری آبادی سے دور تھے، اس بمباری کے بعد پاکستان نے افغانستان کی جانب سے کی گئی سیز فائر کی درخواست قبول کرلی تھی۔

Leave a Reply