نوعمر شہید کی کہانی ۔۔۔۔

16 سالہ جانباز: حسن المعصوابیؒ
جنگ رکنے کے بعد اگلے محاذوں میں جانباز اپنے شہید ساتھیوں کی لاشیں ملبے سے نکال رہے ہیں۔ اسی دوران ایک نوخیز لڑکے کی لاش برآمد ہوئی۔ سب حیران کہ یہ بچہ کون ہے جو صف اول میں شامل تھا؟ معلوم ہوا، یہ 16 سالہ حسن محمد المعصوابی ہے، جس نے کم عمری کے باوجود محاذِ اقصیٰ پر قدم رکھا اور شہادت کو اپنی آرزو بنا لیا۔
جب دنیا کے بچے اسی عمر میں کھیل کود، موبائل فون، ٹک ٹاک اور گیمز جیسی خرافات میں مگن ہوتے ہیں، غزہ کے یہ بچے اپنی مٹی، اپنے دین اور اپنے قبلۂ اول کے دفاع کے خواب دیکھتے ہیں۔ حسن کی عمر طوفان کے وقت 16 برس سے بھی کم تھی، یعنی ابھی شرعی ذمہ داری کا قلم اس پر نہیں چلا تھا، مگر ایمان نے اس کے دل میں وہ روشنی بھر دی تھی جو بڑے بڑوں کو نصیب نہیں ہوتی۔
اس نے بندوق کو کھیل نہیں، امانت سمجھا۔ جنگ کو نفرت نہیں، ایمان کی آزمائش جانا۔ جب اس کی لاش ملی تو بدن پر مٹی تھی مگر چہرے پر سکون، جیسے وہ جانتا ہو کہ اس نے اپنا فرض ادا کر دیا۔
یہی ہیں قدس کے بچے، جن کی گردنوں پر قبلۂ اول کی امانت رکھی گئی ہے۔ یہ کاتب تقدیر کی نرالی تقسیم ہے۔ ہمارے بچوں کے ہاتھ میں گیند و بلا، عام عرب لڑکے بالے فٹ بال کا کرہ۔ مگر غزہ کے غازیوں کے خواب، ان کے کھیل، ان کی محبتیں سب ایک ہی سمت جاتی ہیں بیت المقدس کی آزادی۔ حسن المعصوابی اس قافلے کا ایک چراغ تھا، جو بتا گیا کہ ایمان عمر سے نہیں، جذبے سے پہچانا جاتا ہے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

Leave a Reply