تقریباً ایک سال کے محاصرے اور ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے شہر پر قبضہ کرنے کے بعد سے 10 دنوں کے دوران الفشار میں بڑے پیمانے پر ہونے والے قتل عام کی وجہ سے سوڈان کے تنازعے میں بین الاقوامی دلچسپی بحال ہوچکی ہے حالانکہ اس خوفناک خون ریزی کو روکنے کی کوئی واضح کوششیں نہیں کی گئی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ امریکی افواج نائیجیریا میں ’ہمارے پیارے مسیحیوں‘ پر حملہ کرنے والے ’دہشت گرد غنڈوں‘ سے نمٹنے کے لیے ’بندوقوں کی چمک‘ کے ساتھ داخل ہو سکتی ہیں۔ افریقی بر اعظم کے بہت سے دوسرے ممالک کی طرح، نائیجیریا کو بھی انتہا پسند تنظیم بوکو حرام کے مظالم کا سامنا ہے لیکن یہ صرف مسیحی لوگ ہی نہیں جو دہشت زدہ ہیں۔
اس کے علاوہ شاید امریکی صدر جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں (ان کی لاعلمی کا امکان زیادہ ہے) کہ افریقہ بھر میں دہائیوں پر محیط امریکی فوجی مداخلت، القاعدہ سے وابستہ افراد اور ذیلی تنظیموں کی مذموم سرگرمیوں سے نمٹنے میں کافی حد تک ناکام رہی ہے۔
کسی خاص مذہب پر توجہ مرکوز کرنا ٹرمپ کی تنگ نظر ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے یا شاید یہ ان کے جھوٹ کا پردہ چاک کرتا ہے جنہوں نے غزہ میں خطرے میں گھرے یا اپنی جان گنوانے والے مسیحیوں کے لیے کبھی تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ اور جہاں تک نائیجیریا کی بات ہے تو خدشات ٹھیک ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ افریقہ کا وہ ملک نہیں جو اس وقت سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔
یہ تشویش تو سوڈان کے بارے میں ہونی چاہیے جو 1956ء میں برطانوی نوآبادیاتی قوت سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے تقریباً مختلف نوعیت کے تنازعات سے گھرا ہوا ہے۔ لیکن اس تشدد کی حالیہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی جو سوڈان نے 7 سال قبل ایک عوامی بغاوت کے نتیجے میں فوجی آمر کا تختہ الٹنے کے بعد سے برداشت کیا تھا۔
عمر البشیر 1989ء سے اقتدار میں تھے اور وہ سنگین جرائم کے ذمہ دار ٹھہرائے جانے کے مستحق ہیں بشمول 2003ء میں دارفر نسل کشی کہ جب حکومت کی حمایت یافتہ جنجاوید ملیشیا نے خطے میں غیرعرب رہائشیوں پر حملہ کیا تھا۔ جنجاوید کی قیادت ایک سفاک جنگجو محمد حمدان دگالو نے کی تھی جسے ہمدتی بھی کہا جاتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ ملیشیا آر ایس ایف میں تبدیل ہو گیا۔ 2021ء میں فوجی بغاوت کے بعد جزوی طور پر عوامی حکومت کو ہٹانے کے بعد جس نے عمر البشیر کی جگہ لی تھی، آر ایس ایف نے سوڈانی مسلح افواج (ایس اے ایف) کے ساتھ اقتدار کا اشتراک کیا حالانکہ اس حکومت کا مقصد سوڈان کو جمہوریت کی طرف راغب کرنا تھا۔
2023ء میں آر ایس ایف اور ایس اے ایف کے درمیان ایک بڑا تنازع ہوا جس کے بعد افراتفری پھیل گئی۔ آر ایس ایف کے اہداف میں خرطوم بھی شامل تھا جسے اس نے غضب کا نشانہ بنایا۔ اس کے بعد سے دونوں فریقین نے مختلف اقسام کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ گزرتے برسوں میں انہوں نے علاقائی اتحادی بھی بنائے ہیں جو ہتھیاروں اور سفارتی سطح میں معاونت کرتے ہیں۔
جیسے خاص طور پر آر ایس ایف متحدہ عرب امارات کی مدد پر انحصار کرتی ہے جو چین اور برطانیہ جیسے ذرائع سے آر ایس ایف کو ہتھیار فراہم کرتا ہے جبکہ لڑنے کے لیے اسے کولمبیا سے فوجیوں کی خدمات حاصل ہیں۔ ان کا گٹھ جوڑ برسوں پہلے شروع ہوا کہ جب آر ایس ایف نے یمن کی جنگ میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی مدد کی۔
اب متحدہ عرب امارات نے صرف احسان لوٹانے کے مقصد سے ان پُرتشدد گروہوں کی حمایت نہیں کررہی بلکہ اس کے اپنے مقاصد بھی وابستہ ہیں۔ متحدہ عرب امارات سوڈان سے سونے تک مستقل رسائی، زرخیز زمینوں پر کھیتی باڑی اور بحیرہ احمر پر بندرگاہوں کے کنٹرول کا خواہش مند ہے۔ ان میں سب سے پہلا مقصد یعنی سونے کا حصول ہی اماراتی ریاست کو فوائد پہنچا رہا ہے۔
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ مبینہ طور پر متحدہ عرب امارات اپنی علاقائی بالادستی کو بڑھانے کے لیے اسرائیل کے ساتھ مل کر یمن کے ساحل سے دور بندرگاہیں اور جزیرے بھی حاصل کر رہا ہے اور ساتھ ہی لیبیا اور صومالیہ میں اپنے کلائنٹس کو سوڈان میں اپنی پراکسیز کی مدد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایس اے ایف کو متحدہ عرب امارات کے علاقائی حریفوں جیسے سعودی عرب، قطر، مصر اور ترکیہ کی حمایت حاصل ہے۔ چین، روس اور یہاں تک کہ یوکرین جیسے ممالک بھی سوڈان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے لیے جزوی طور پر ذمہ دار ہیں، اس لیے وہ اس میں ملوث ہونے سے مکمل انکار نہیں کر سکتے۔
یہ سوال تو ذہن میں اٹھتا ہے کہ اگر نام نہاد بین الاقوامی برادری نسل کشی روک نہیں سکتی تو آخر اس کی حیثیت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے۔ اکتوبر 2023ء میں غزہ میں ہونے والی شہادتوں کے سلسلے کو فی الوقت روک دیا گیا ہے لیکن اس کے بارے میں زیادہ یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا اور ان کے پیچھے مرکزی گروپ کے دوسرے منصوبے واضح ہیں۔
سوڈان میں بڑے پیمانے پر قتل عام صرف اس صورت میں کم یا روکا جا سکتا ہے جب لڑنے والے گروپس کے حامی نظر ثانی کریں کہ آخر وہ کس مقصد کی حمایت کررہے ہیں۔
اگر کوئی بہت اہم اتحادی ان پر دباؤ ڈالتا ہے تو شیخ اکثر اپنا ذہن بدل لیتے ہیں لیکن انہیں یہ احساس دلانے میں صرف ایک انتباہ کافی نہیں ہوگا کہ حفتر یا ہمدتی جیسے لوگوں کی حمایت کرنا دراصل ان کے اپنے مفادات کے منافی ہے۔
کسی کو بھی اس وہم میں نہیں رہنا چاہیے کہ متحدہ عرب امارات کو سوڈان کے بدترین گروہوں کی سرپرستی سے روکنے سے اچانک ملک کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ افریقہ میں اثر و رسوخ میں مقابلے کا کھیل اب بھی مضبوط ہے اور دونوں پرانی نوآبادیاتی طاقتیں کے علاوہ خلیج و دیگر مقامات پر نو بالادست ممالک بھی جلد ہی پیچھے ہٹنے کا ارادہ نہیں کر رہے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ غزہ اور دیگر مقامات پر متاثرین اکثر اقتدار میں رہنے والوں کے لیے کسی اہمیت کے حامل نہیں ہوتے۔ مستقبل حال و ماضی سے بہتر ہوتا ہے یا نہیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
