ٹرمپ کے سابق مشیر نے خفیہ معلومات کے غلط استعمال کے الزام میں خود کو حکام کے حوالے کر دیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر اور اب ان کے سخت ناقد اور قومی سلامتی پر سخت گیر مؤقف رکھنے والے رہنما جان بولٹن نے خفیہ معلومات کے غلط استعمال کے الزامات میں خود کو حکام کے حوالے کر دیا۔

عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق جان بولٹن پر جمعرات کو فردِ جرم عائد کی گئی تھی، وہ حالیہ ہفتوں میں ٹرمپ کے تیسرے نمایاں ناقد ہیں جنہیں قانونی کارروائی کا سامنا ہے، کیونکہ امریکی صدر نے ان دہائیوں پرانی روایات کو توڑ دیا ہے جو وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی دباؤ سے بچانے کے لیے قائم کی گئی تھیں۔

جان بولٹن جب گرین بیلٹ، میری لینڈ میں عدالت پہنچے تو انہوں نے صحافیوں سے کوئی بات نہیں کی، توقع ہے کہ انہیں دن میں کسی وقت عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

جان بولٹن اور ان کی ٹیم کو امریکی مارشل سروس کے دفتر میں داخل ہوتے دیکھا گیا، جہاں انہوں نے خود کو حکام کے حوالے کیا۔

جان بولٹن پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی تحریر کردہ کتاب میں ممکنہ استعمال کے لیے اپنے دو رشتہ داروں کے ساتھ حساس معلومات شیئر کیں، جن میں خفیہ انٹیلی جنس بریفنگز کے نوٹس اور اعلیٰ سرکاری عہدیداروں اور غیر ملکی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں کی تفصیلات شامل تھیں۔

بولٹن نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ ’میں اپنے قانونی طرز عمل کا دفاع کرنے اور (ٹرمپ کے) اختیارات کے ناجائز استعمال کو بے نقاب کرنے کی جدوجہد کا منتظر ہوں۔‘

جان بولٹن کے وکیل ایبی لوول نے کہا کہ بولٹن نے کوئی بھی معلومات غیر قانونی طور پر شیئر یا محفوظ نہیں کیں۔

— فوٹو: رائٹرز؛ قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن 17 اکتوبر 2025 کو اپنی رہائش گاہ بتھیسڈا، میری لینڈ سے روانہ ہوتے ہوئے

ٹرمپ، جو ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، نے اپنی صدارتی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے پہلے دور حکومت کے بعد درپیش ہونے والے قانونی مسائل کا بدلہ لیں گے۔

انہوں نے اپنی اٹارنی جنرل پام بونڈی پر دباؤ ڈالا کہ وہ ان کے سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیاں کریں۔

اس میں سابق ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمز کومی اور نیو یارک اٹارنی جنرل لیٹیشیا جیمز کے خلاف مقدمے دائر کرنے کی کوشش بھی شامل تھی، حتیٰ کہ انہوں نے ایک ایسے پراسیکیوٹر کو بھی برطرف کر دیا جسے وہ ’ سست روی’ کا شکار سمجھتے تھے۔

جان بولٹن نے ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دی تھیں، لیکن بعد میں وہ ان کے سخت ناقد بن گئے۔

سابق اقوام متحدہ میں امریکی سفیر بولٹن نے گزشتہ سال شائع ہونے والی اپنی یادداشتوں میں ٹرمپ کو ’ صدر بننے کے ناقابل ’ قرار دیا تھا۔

جان بولٹن کے خلاف تحقیقات 2022 میں شروع ہوئیں، یعنی یہ ٹرمپ انتظامیہ سے پہلے کی بات ہے۔

ایک باخبر ذریعے کے مطابق وزارت انصاف کے اندر، اس مقدمے کو کومی اور جیمز کے مقدمات سے زیادہ مضبوط سمجھا جا رہا ہے۔

جان بولٹن پر آٹھ الزامات قومی دفاعی معلومات کی ترسیل اور دس الزامات ان معلومات کے غیر قانونی تحفظ کے لگائے گئے ہیں، جو سب جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔

ہر الزام پر زیادہ سے زیادہ 10 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے، تاہم سزا کا تعین جج مختلف عوامل کی بنیاد پر کریں گے۔

الزامات کے مطابق، بولٹن اور ان کے دو رشتہ داروں (نام ظاہر نہیں کیے گئے) نے چیٹس میں اس بات پر گفتگو کی کہ وہ کچھ مواد کو کتاب میں استعمال کریں گے، بولٹن نے ان دونوں کو اپنے ’ ایڈیٹرز’ قرار دیا تھا۔

ایک پیغام میں بولٹن نے لکھا کہ ’(کتاب کے ناشر) سے بات ہو رہی ہے کیونکہ ان کے پاس پہلے انکار کا حق ہے!‘

معاملے سے واقف دو افراد کے مطابق، الزامات میں جن دو رشتہ داروں کا ذکر ہے، وہ بولٹن کی بیوی اور بیٹی ہیں۔

جب جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں نے ٹرمپ سے بولٹن پر عائد الزامات کے بارے میں سوال کیا، تو ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’ وہ ایک برا شخص ہے۔’

Leave a Reply