افیسران کا ڈکی بھائی سے رشوت لینے کا کیس، NCCIA کے سربراہ وقارالدین سید کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کرتے ہوئے حکومت نے منگل کے روز ایجنسی کے سربراہ وقارالدین سید کو عہدے سے ہٹا دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب 9 افسران کے خلاف رشوت لینے اور اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات میں مقدمات درج کیے گئے ہیں، جن میں سے 6 افسران کو عدالت میں پیش کیا گیا اور 3 روزہ ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔
ان افسران پر یوٹیوبر سعدالرحمٰن (عرف ڈکی بھائی) کے کیس سمیت مختلف تحقیقات میں بے ضابطگیوں کے الزامات ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) این سی سی آئی اے وقارالدین سید کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، ان کی جگہ پولیس سروس آف پاکستان (بی ایس-21) کے افسر سید خرم علی کو نیا سربراہ تعینات کیا گیا ہے، جو اس سے قبل پنجاب حکومت کے ساتھ خدمات انجام دے چکے ہیں۔
دریں اثنا، این سی سی آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز (لاہور)، ڈپٹی ڈائریکٹر (قائم مقام انچارج) محمد زوار احمد، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز شعیب ریاض، مجتبیٰ ظفر، سب انسپکٹرز علی رضا اور یاسر رمضان جو کئی ہفتوں سے ’لاپتا‘ بتائے جا رہے تھے، انہیں ہتھکڑیوں میں جکڑ کر جوڈیشل مجسٹریٹ نعیم وٹو کی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سے انہیں 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔
ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے یوٹیوبر کے خلاف کیس میں رشوت لی اور اختیارات کا غلط استعمال کیا، یہ کیس سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر جوے کی ایپس کی تشہیر سے متعلق ہے۔
وکیل دفاع میاں علی اشفاق نے مؤقف اپنایا کہ گرفتاری کے لیے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
ایف آئی اے کے مطابق مقدمہ سعد الرحمٰن کی اہلیہ عروب جتوئی کی شکایت پر درج کیا گیا تھا، جنہوں نے الزام عائد کیا کہ متعلقہ افسران نے مقامی و غیر ملکی کرنسی میں 10 کروڑ روپے سے زائد رقم وصول کی اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔
ایف آئی اے نے 3 مزید افسران کو بھی نامزد کیا ہے جن میں ڈپٹی ڈائریکٹر (اسلام آباد) محمد عثمان، جن کی اہلیہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی گمشدگی کی درخواست دائر کر رکھی ہے، ڈپٹی ڈائریکٹر (اسلام آباد) ایاز خان اور انسپکٹر سلمان عزیز شامل ہیں۔
تمام 9 مشتبہ افسران کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 109 اور 161 کے تحت، انسدادِ بدعنوانی ایکٹ 1947 کی دفعہ 5(2) کے ساتھ ملا کر مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
ایک اندرونی انکوائری میں انکشاف ہوا کہ یہ افسران مبینہ طور پر ایک نیٹ ورک کی صورت میں کام کرتے تھے جو ’کال سینٹرز، ایگریگیٹر کمپنیوں اور آن لائن فراڈ میں ملوث افراد‘ کو سہولت فراہم کرنے کے بدلے ماہانہ نقد رشوت وصول کرتے تھے۔
اپنا حصہ رکھنے کے بعد وہ باقی رقم ’سرکاری گروہ‘ کے دیگر ارکان میں تقسیم کر دیتے تھے۔
ایک سرکاری ذرائع نے الزام عائد کیا کہ این سی سی آئی اے (جو مئی میں ایف آئی اے کے سائبر کرائم وِنگ کو تبدیل کر کے قائم کی گئی تھی) مسئلے کو حل کرنے کے بجائے خود مسئلے کا حصہ بن چکی تھی۔
ذرائع کے مطابق بعض متاثرہ خواتین کے استحصال سے متعلق شکایات بھی موصول ہوئی ہیں۔
فرشتوں کے محکمے میں 10 کروڑ روپے میں بکنے والے 9 افسران گرفتار